کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 35
٭ ان کے علاوہ فاضلین جامعہ کی ایک بڑی تعداد پروگرام میں شریک ہوئی لیکن وقت کی قلت کے باعث سب شر کا کو تعارف کا موقع دینا ممکن نہ تھا، لہٰذا ایک جائزہ فارم تمام شرکاء میں تقسیم کر دیا گیا جس میں مکمل کوائف، موجودہ دینی سرگرمیاں اور دین کے اس سفر میں درپیش مشکلات اور زندگی کے مراحل میں حاصل ہونے والے تجربات وغیرہ کی بابت استفسار کیا گیا تھا۔
٭ جامعہ کے موجودہ اساتذہ کے علاوہ ان اساتذہ کو بھی اس مجلس میں شرکت کی عوت دی گئی تھی جو کسی دور میں جامعہ پڑھاتے رہے تھے۔
٭ ان میں سے پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ موصوف جامعہ سعیدیہ دہلی کے فاضل مولانا شرف الدین دہلوی کے شاگرد ہونے کے ناطے سعیدی کہلاتے ہیں۔ سلطان المحدثین مولانا سلطان محمود رحمۃ اللہ علیہ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ لاہور الاسلامیہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔
تصنیف و تالیف کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کے مقالات جرائد و مجلات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اُصول حدیث کی معروف کتاب: ’تدریب الراوی‘ کا ترجمہ مکمل کر چکے ہیں جو اَب طباعت کے مراحل میں ہے۔ آج کل لیہ کالج میں لیکچرر ہیں۔ اُنہوں نے اپنا تعارف کروانے کے بعد دعوتِ دین کے میان میں موعظہ حسنہ اور حکمت کو پیش نظر رکھنے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ کالج اور یونیورسٹی کے ماحول میں کسی گروہ اور بدعت و گمراہی کا نام لے کر ردّ کرنے کی بجائے اس کے متعلق طلباء کے ذہن میں سوالات کو اُبھاریں کہ وہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔
٭ اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ کو دعوتِ سخن دی گئی۔ موصوف ایم اے اسلامیات کے بعد کالج میں لیکچرار ہوئے اور نصاب کی متعدد کتب تصنیف کیں۔ ان کی تعلیمی خدمات کے صلے میں لندن کی یونیورسٹی نے اُنہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ موصوف جامعہ کے ابتدائی سالوں (۱۹۷۱ء) میں طلبا کو عصری علوم کی تعلیم دیتے رہے۔ اُنہوں نے سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تین کردار فاضلین جامعہ کے سامنے پیش کئے:
1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اُمت کو اسلام کی دعوت دی۔
2. جب دشمنوں نے ظلم کی انتہاء کر دی تو مکہ چھوڑتے وقت دشمنوں کی امانتیں واپس کر دیں۔