کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 33
الشريعة سے فراغت کے بعد جامعہ ہذا میں ہی تدریس کے ساتھ ساتھ لاہور کی ایک جامع مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے بتایا کہ حاملین دین کے لئے اللہ نے دو جنتیں تیار کی ہیں: ایک دنیا کی جنت اور دوسری آخرت میں۔ اور دنیا کی جنت سے مراد اطمینان و سکون ہے جو اللہ تعالیٰ اہل دین کو یقیناً دنیا میں عطا کرتے ہیں۔
٭ اس کے بعد مولانا حافظ عبد الوحید نے بڑے دلچسپ انداز میں دورانِ تعلیم اور اس کے بعد اپنی سرگرمیوں اور تجربات کا ذِکر کیا۔ موصوف جامعہ کے ان طلباء میں سے تھے جب جامعہ ہنجروال، اعظم گارڈن، لاہور میں واقع تھا۔ مولانا عبد الرحمن عظیمی، قاری نعیم الحق نعیم اور مولانا سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہم اللہ ان کے خصوصی اساتذہ میں سے ہیں۔ جامعہ ملک سعود، ریاض سے و سال کا کورس مکمل کرنے کے بعد دعوتِ دین کی تڑپ اُنہیں واپس پاکستان لے آئی۔ آپ کئی سال تدریس بھی کرتے رہے اور ۲ سال سے معروف جماعتی جریدہ ہفت روزہ ’الاعتصام‘ کے مدیر ہیں۔ اُنہوں نے جامعہ کی ترقی میں مولانا مدنی کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم أبناء الجامعة ہیں تو مدنی صاحب بجا طور پر أبو الجامعة ہیں۔
اُنہوں نے اپنے تجرباتِ زندگی کے تناظر میں علماء کے لئے مسلسل مطالعہ پر زور دیا اور اپنے زیر ادارت ساتھیں پر اعتماد، أمرھم شوریٰ بینھم کے تحت ان سے مشاورت کو عمدہ نتائج و ثمرات کا مرہون قرار دیا۔
٭ اس کے بعد جامعہ کے فاضل حافظ حسن مدنی کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ موصوف ۱۹۹۲ء میں جامعہ سے فارغ ہوئے اور اس کے بعد جامعہ کے ترجمان ماہنامہ ’محدث‘ کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ موصوف جامعہ کی مجلس انتظامی میں بھی سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے ان علمی خدمات کو محض اللہ کی مدد اور دینی و علمی ماحول کا مرہون قرار دیا۔ اُنہوں نے اپنے اساتذہ بطورِ خاص مولانا محمد رمضان سلفی، مولانا سعید مجتبیٰ سعیدی اور مولانا خالد سیف شہید رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی کا ذِکر کرتے ہوئے ان کے اس احسانِ عظیم کا جذبات سے لبریز انداز میں تذکرہ کیا۔