کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 3
استعمار نے ہمارے اپنے نظامِ تعلیم اور طرزِ معاشرت کو منسوخ کر کے اپنی تمام کوششیں اپنے نظام ہائے معاشرت کو جاری و ساری کرنے میں صرف کیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کا پاکستان معاشرہ بحیثیتِ مجموعی اسلامی اساسات سے ہٹ چکا ہے۔۔۔۔! اسلامی معاشرہ کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہاں سیاست ’جمہوریت‘ کی بجائے خلافت و امارت کی طرز پر قائم ہوتی ہے۔ مسلمان وطن پرستی کے بجائے ملت کے تصور سے مذہب اور عقیدے کے رشتے میں جڑے ہوتے ہیں۔ اسلامی ریاست کی معیشت ٹیکس، بنکوں اور سود کی بجائے زکوٰۃ و صدقات اور مشارکت و مضاربت کی بنا پر استوار ہوتی ہے۔ وہاں کا قانون اینگلو سیکسن لا کی بجائے کتاب و سنت ہوتا ہے جس میں وحی کی بنا پر فیصلے کئے جاتے ہیں اور قاضی کا منصب کتاب و سنت کے ماہر کے حوالے ہی کیا جاتا ہے۔ اسلام کے نظامِ تعلیم میں قرآن و سنت صرف ایک شعبۂ تعلیم میں محدود ہونے کی بجائے تمام علوم کی اساس اور مرکز و محور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمان مذہبی علوم کے علاوہ اگر ریاضی، جغرافیہ، حیاتیات، سائنس اور فلکیات و عمرانیات پڑھتے ہیں تو قرآن میں دیئے گئے اُصولوں کی روشنی میں ان کا یہ مطالعہ آگے بڑھتا ہے۔ مسلم معاشرہ مرد و زَن کی کار رزارِ حیات میں تقسیم کار کے اُصول پر قائم ہوتا اور اس میں خاندانی نظام، رشتہ داروں کے حقوق، کفالت، رضاعت، پرورش، نسب اور وراثت کا مکمل نظام کام کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے ہی مسلم فوج کا بنیادی مقصد جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ ہوتا ہے۔ کوئی معاشرہ سیاسی، عدالتی، معاشی، معاشرتی و خاندانی اور تعلیمی نظاموں کی بدولت ہی اپنا تشخص قائم کرتا ہے جبکہ اوپر ذکر کردہ تمام اساسی پہلوؤں میں پاکستانی معاشرہ اسلامی نظریات و تصورات کی نمائندگی نہیں کرتا، اس کے بعد اسے مسلمانوں کا معاشرہ تو کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں مسلمان بستے ہیں، لیکن اسلامی معاشرہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس معاشرے کی ساخت میں اسلامی احکامات کار فرما نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم اسلام کا نام لینے کے باوجود سیکولرازم کو سینوں سے لگائے ہوتے ہیں اور اسلامی اقدار کا تحفظ اگر کہیں ملتا ہے تو اسی قدر جتنا کسی فرد کے لئے