کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 29
سے مبرا تھا، اسی کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف نقل کئے اور تبدیل شدہ چیزیں جن میں منسوخ آیات، شاذ قراءات اور سبعہ احرف میں سے جزوی چیزیں بدلی جا چکی تھیں اور لوگوں میں شائع ہو چکی تھیں اور وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع شدہ قرآن کی اطلاع نہ پا سکے، نتیجتاً جس کسی کے پاس جو کچھ تھا وہ تلاوت کرتا رہا، جس سے اختلافات کا ہونا لازمی امر تھا۔ اب جو مصاحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تلف کئے تھے، ان میں یہ چیزیں شامل تھیں مثلاً ایسی منسوخ آیات جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھیں مگر لوگ پڑھ رہے تھے۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ بن عازب فرماتے ہیں: فأنزلت ھذه الآية (حَافِظُوْا َلَي الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوةِ الْعَصْرِ) فقرأناھا ما شاء اللّٰه ثم نزلت (حَافِطُوْا عَلَي الصَّلَوَاتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطٰي) پہلے یہ آیت نازل ہوئی: ﴿حَافِظُوْا عَلَي الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوةِ الْعَصْرِ﴾ تو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا، ہم اسے پڑھتے رہے پھر یہ آیت نازل ہوئی ﴿حَافِطُوْا عَلَي الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰي﴾ (فتح الباری: ۸/۱۹۸) اور یہ منسوخ شدہ آیت عرضہ اخیرہ میں موجود نہیں تھی۔ اسی طرح کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن لکھتے ہوئے تفسیری کلمات بھی ساتھ لکھ دیتے تھے جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: وكان لا يعتقد تحريم ذلك وكان يراه كصحيفة يثبت فيھا ما يشاء وكان رأي عثمان والجماعة منع ذلك لئلا يتطاول الزمان ويظن ذلك قرآنا۔ (شرح النووی: ۶/۳۴۹) ’’وہ قرآن کے متن کے ساتھ اس کی تفسیر کو لکھنا حرام نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اسے مصحف کی بجائے ایک صحیفہ سمجھتے تھے اور اس میں جو چاہتے لکھ لیتے، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اس کو ممنوع سمجھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک مدت گزرنے کے بعد لوگ اسے بھی قرآن سمجھ لیں۔‘‘ جمع صدیقی اور جمع عثمانی میں یہ تمام چیزیں نکالی گئی تھیں اور اُنہوں نے سات حروف میں سے چھ کو قطعاً ختم نہیں کیا تھا بلکہ اُنہوں نے وہی کچھ نکالا تھا جو عرضہ اخیزہ کے وقت اللہ کی طرف سے نکال دیا گیا تھا۔