کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 28
بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔‘‘ یہ نص ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے کسی زیروزبر کا بھی تصرف نہیں کیا اور ہمارا ایمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی تصرف نہیں کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی تصرف نہیں کیا اور یہ قرآن اسی شکل میں جس شکل میں آسمان سے جبریل علیہ السلام لائے تھے، ہمارے پاس پہنچا۔ جہاں تک قراءات کا تعلق ہے تو وہ ثابت ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ قراءت مجھے پسند ہے اور فلاں کی قرأت پسند نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر میں متعدد مقامات پر مختلف قراءات کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو تلف کیا، وہ کیا تھا؟ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ ختم کیا، وہ کیا تھا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اکٹھے کئے ہوئے صحائف جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے، کو لے کر اُنہیں مصاحف میں نقل کیا کیونکہ یہ عرضہ اخیرہ، یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کے سات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو آخری دور ہوا تھا، اس کے مطابق تھے۔ حضرت جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال قرآن کا دور کرواتے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "كان يعرض علي النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم القرآن كل عام مرة فعرض عليه مرتين في العام الذي قبض فيه" ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن ہر سال پیش کیا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات والے سال دو دفعہ آپ پر قرآن پیش کیا گیا۔‘‘ (صحیح بخاری: ۸/۴۹۹) ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے مشہور تابعی علامہ ابن سیرین کا یہ قول نقل کیا ہے: فأنا أرجو أن تكون قراءتنا العرضة الآخيرة (الطبقات الكبريٰ: ۲/۱۹۵) ’’پس مجھے اُمید ہے کہ ہماری موجودہ قراءت اسی عرضہ اخیرہ کے مطابق ہے۔‘‘ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرضۂ اخیرہ والے قرآن کو ہی نقل کیا تھا جبکہ عرضہ اخیرہ والا قرآن وہ قرآن تھا جس میں آخری احکام اور جو جو تبدیلی مقصود تھی، کر دی گئی۔ اب یہ قرآن جو تبدیلیوں