کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 27
تيسّر عليه وبما ھو أخف علي طبعه وأقرب للغته لما يلحق من المشقة بذلك المألف من العادة في النطق ونحن اليوم مع عجمية ألسنتنا وبُعدنا عن فصاحة العرب أحوج۔ (المنتقيٰ: ا/۳۴۷) ’’اگر یہ کہا جائے کہ کیا آپ کا قول یہ ہے کہ یہ ساتوں حروف مصحف میں آج بھی موجود ہیں، اس لئے کہ ان سب کی قراءۃ (آپ کے نزدیک) جائز ہے؟ تو ہم یہ کہیں گے کہ جی ہاں! ہمارا قول یہی ہے اور اس کی صحت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ﴾ ’’کہ ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘ اور قرآن کو اس کی قراءات سے الگ کانا ممکن نہیں ہے کہ قرآن تو محفوظ رہے اور اس کی قراءات ختم ہو جائیں۔ ہمارے قول کے صحیح ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کو سات حروف پر اس لئے نازل کیا گیا کہ اس کی قراءت کرنے والے کو آسانی ہو تاکہ ہر شخص اس طریقہ سے تلاوت کر سکے جو اس کے لئے آسان ہو، اس کی طبیعت کے لحاظ سے زیادہ سہل اور اس کی لغت سے زیادہ قرب ہو، کیونکہ گفتگو میں جو عادت پڑ جاتی ہے، اسے ترک کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور آج ہم لوگ اپنی زبان کی عجمیت اور عربی فصاحت سے دور ہونے کی بنا پر اس سہولت کے زیادہ محتاج ہیں۔‘‘ مندرجہ بالا اقوال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ انسان سبعة حروف کا انکار کرے اور یہ کہے کہ اس وقت صرف ایک حرف ہے اور باقی کوئی حرف نہیں۔ اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے تصرف کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿ وَإذَا تُتْلٰي عَلَيْھِمْ آيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ ھَذَا أَوْ بَدِّلُه قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْ أَنْ أَبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَآئَ نَفْسِيْ إنْ أَتَّبعُ إلَّا مَا يُوْحٰي إلَيَّ إنِّيْ أَخَافُ إنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ﴾ (یونس: ۱۵) ’’جب اُنہیں ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو: میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کر لوں۔ میں تو