کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 24
میں موجود تھا اور یہ مکتبہ اس وقت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھلی طرف واقع تھا اور میں نے خود اس قرآن کو دیکھا اور مطالعہ کیا۔ باریک چمڑے پر انتہائی باریک کتابت میں لکھا ہوا تھا۔ شیشے کے بغیر نہیں پڑھا جا سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں لوگوں کا کہنا کہ انہوں نے سوائے حفص کی قراءات کے باقی سب قراءات ختم کر دیں، بالکل درست نہیں ہے اور یہ وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جن کو اس کی اصل کا پتہ نہیں ہے۔ اگر آپ مراکش میں چلے جائیں وہاں ورش کی قراءت ہے اور امریکہ میں ایک صاحب ہمیں خلف کی قراءت میں نمازیں پڑھاتے تھے۔ لہٰذا یہ قراءات آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے مشرق میں صرف حفص کی قراءت مروّج ہے۔ جہاں تک سبعة أحرف کا تعلق ہے تو وہ اپنی وسعت کے ساتھ جس طرح قرآن مجید میں پہلے موجود تھے، اسی طرح قرآنِ مجید میں اب بھی موجود ہیں اور تاقیامت اسی طرح رہیں گے۔ ان وجوہ و حروف کو قرآن سے نکالنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور جمہور اُمت اس بات پر متفق ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا تھا اور وہ آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہیں جس کی تائید ائمہ کے ان اقوال سے ہوتی ہے جو آگے ذکر کئے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ صحیح قول یہ ہے کہ سبعة أحرف سے مراد سات وجوہ ہیں لیکن پھر سات وجوہ کی تعیین میں اختلاف ہوا کہ ان وجوہ کو سات نوع میں کس طرح تقسیم کیا جائے کہ ہر نوع ایک حرف بن جائے، لہٰذا اس میں سب ے محتاط اور راجح قول کہ جس میں مزید ردّ و بدل کی قطعاً گنجائش نظر نہیں آتی وہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، وہ فرماتے ہیں: الكلام لا يخرج عن سبعة أوجه في الاختلاف، الأول: اختلاف الأسماء من إفراد وتثنية وجمع أو تذكير و تأنيث، الثاني: اختلاف تصريف الأفعال من ماضي ومضارع وأمر، الثالث: وجوه الإعراب، الرابع: النقص والزيادة، الخامس: التقديم والتأخير، السادس: الإبدال، السابع: اختلاف اللغات كالفتح والإمالة والترقيق والتفخيم والإدغام والإظھار (فتح الباری: ۹/۲۹)