کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 23
ہیں۔ ان میں سے بعض نے لغات، بعض نے سات قراءات اور بعض نے کچھ اور لیکن محققین قراء نے اس سے سات وجوہ مراد لی ہیں۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہنا کہ اُنہوں نے چھ حروف کو ختم کر دیا اور ایک کو باقی رکھا، گویا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ قراءات ختم کر دیں اور ایک قراءات کو باقی رکھا اور آج ہمارے پاس حفص کی قراءات کی صوت میں موجود ہے، سراسر لغو ہے، حضرت عثمان یہ جرأت کیونکر کر سکتے تھے؟ قرآن نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ ﴿ إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ﴾ (الحجر:۹) ’’قرآنِ مجید ہم نے اُتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘ کسی صحابی یا خلیفہ راشد کو یہ اختیار نہیں ہے کہ شریعت میں کوئی تبدیلی کرے، کجا یہ کہ وہ قرآن کریم میں سے کچھ حذف کر سکے۔ دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہو گیا اور اس میں بعد میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر محض الزام کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی و طرح سے حفاظت فرمائی: ۱۔ حفظ کے ذریعے اور ۲۔ کتابت کے ذریعے قرآنِ مجید کا یہ اعجاز ہے کہ یہ جلد حفظ ہو جاتا ہے، جبکہ باقی کتابوں میں بہت صعوبت تھی اور ان کو حفظ کرنا ناممکن تھا۔ قرآن کریم کو پہلے پہل جمع کرنے کا خیال بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حفاظ کرام کی شہادت کے بعد آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کتاب کے بارے میں فرمایا: ﴿ بَلْ ھُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ أُوْتُوْا العِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إلَّا الظَّالِمُوْنَ﴾ (العنکبوت:۴۹) ’’دراصل یہ روشن نشانیاں ہیں، ان لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم بخشا گیا ہے اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر وہ جو ظالم ہیں۔‘‘ قرآنِ مجید جس شکل میں اور جن حروف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا، انہی حروف کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے محفوظ رکھا اور انہی حروف کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محفوظ رکھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہی صحیفوں سے نقل کیا جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے اور پھر ان مصاحف کو مختلف علاقوں میں پھیلا دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قرآن ہمارے زمانہ تعلیم میں مدینہ منورہ کے ’مکتبہ عارف حکمت‘