کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 22
حدیث سبۃ أحرف اور اختلافِ اُمت: متواتر حدیث سے ثابت ہے کہ ((أنزل القرآن علٰی سبعة أحرف)) ’’قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے۔‘‘ لیکن جب ضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کو ایک مصحف میں جمع کر دیا گیا اور باقی مصاحف کو تلف کر دیا گیا و اس سے لوگوں کو یہ شبہ ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو باقی مصاحف جلا دیئے، وہ چھ حروف تھے تو اِس غلط فہمی نے قراءات کے متعلق اُمت میں ایک غلط نظریہ پیدا کر دیا، جس سے لوگ صرف حفص کی قراءت جو آج ہمارے برصغیر میں مروّج ہے کو ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک حرف پر بچایا ہوا قرآن سمجھنے لگے گئے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ہم یہ حدیث زکر کرتے ہیں تاکہ اس کا پس منظر سامنے آئے: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام رضی اللہ عنہ بن حکیم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورۂ فرقان پڑھتے سنا۔ وہ اس کو کئی حروف پر پڑھ رہے تھے جن کو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سکھلایا تھا۔ قریب تھا کہ میں نماز میں ہی اُنہیں جا لیتا، میں نے صبر کیا حتیٰ کہ اُنہوں نے سلام پھیرا۔ میں نے ان کے گلے میں چادر ڈالی اور پوچھا کہ تمہیں یہ سورت کس نے پڑھائی ہے؟ تو وہ کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ سورت پڑھائی ہے۔ میں نے کہا: تم جھوٹ بول رہے ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تو کسی اور طرح یہ سورت پڑھائی ہے۔ آخر میں اُنہیں کھینچتا ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یہ سورۂ فرقان کو کسی اور طرح ہی پڑھ رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھایا۔ آپ نے حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ پڑھیں تو حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے وہی قراءت پڑھی جو پہلے پڑھ رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھنے کا حکم دیا۔ میں نے بھی اسی طرح پڑھی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہ بھی صحیح ہے اور یہ اسی طرح نازل ہوئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو! یہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے، ان میں سے جو حرف تم کو آسان لگے، وہ پڑھ لیا کرو۔‘‘ (صحیح بخاری: ۴۹۹۲) واضح رہے کہ حدیث: ((أنزل القرآن علٰی سبعة أحرف)) اکیس صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور محدثین نے اس حدیث کو متواتر کا درجہ دیا ہے۔ تاہم لوگوں کا اس کے معنی و مفہوم کے تعین میں اختلاف ہوا۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الإتقان میں اس کے متعلق چالیس اقوال ذکر کئے ہیں، اسی طرح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے پینتیس اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں متعدد اقوال ذکر کئے