کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 21
اور آذر بائیجان کی فتوحات کے لئے عراق اور شام کے مسلمانوں سے مل کر لڑ رہے تھے۔ آپ نے وہاں قراءۃ کا اختلاف دیکھا تو گھبرائے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ امیر المومنین اس اُمت کی اصلاح کیجئے، اس سے پہلے کہ یہود کی طرح یہ بھی قرآن میں اختلاف کرنے لگیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ جو صحیفے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود ہیں، ہمیں دے دیں، ہم ان کو مصاحف کی شکل میں نقل کرنا چاہتے ہیں اور نقل کرنے کے بعد آپ کو واپس کر دیئے جائیں گے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھیج دیئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ، عبد الرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ ، سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ یہ چار آدمی تھے، تین قریشی اور ایک انصاری۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تینوں قریشیوں کو کہا کہ جب تمہارا زید رضی اللہ عنہ سے قرآن میں سے کسی لفظ کے لکھنے میں اختلاف ہو تو اس کو قریش کے رسم پر لکھنا کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ اُنہوں نے اسی طرح کیا، ان صحائف کو مصاحف میں نقل کر دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والے صحائف اُنہیں واپس کر دیئے اور جو مصاحف ان سے نقل کئے گئے تھے وہ مختلف علاقوں میں بھیج دیئے گئے اور ان کے علاوہ باقی سب مصاحف کو جلا دیا گیا۔ (رقم: ۴۹۸۷) اس سے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ور میں قرآن منتشر تھا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید صحیفوں کی شکل میں مرتب کیا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں صحیفوں کو مصحف کی شکل میں مرتب کیا گیا اور اس کی بنیاد اسی نسخہ کو بنایا گیا جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا تھا۔ کمیٹی کا اختلاف: مذکورہ بالا ہدایت میں ذکر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کمیٹی کے ارکان کو اختلاف کی صورت میں قریش کی زبان میں لکھنے کی تاکید فرمائی تھی۔ ان لوگوں نے جب قرآن کی آیات کو نقل کرنا شروع کیا تو سوائے ایک جگہ کے پورے قرآن میں اختلاف نہ پایا اور وہ بھی لفظ التابوت کے متعلق کہ اسے تا ے مدوّرہ یعنی ول تا کے ساتھ التابوۃ لکھا جائے یا لمبی تا التابوت کے ساتھ لکھا جائے تو سب نے بالاتفاق قریش کی زبان کے مطابق اسے لمبی تا کے ساتھ لکھا اور یہ معمولی سا اختلاف بھی رفع ہو گیا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قریش کی زبان کو یہ ترجیح حضرت عثمان نے رسم الخط کے سلسلے میں دی تھی۔