کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 20
ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یمامہ کی لڑائی مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس ہی تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ مقتولین بڑھتے جا رہے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ اگر اسی طرح تیزی سے قراء شہید ہوتے گئے تو قرآن کا بہت سارا صہ ضائع ہو جائے گا، میرا خیال ہے کہ قرآن کو جمع کر لیا جائے تو میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ جو کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، ہم وہ کیسے کر لیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ھٰذا واللّٰه خير ’’اللہ کی قسم! مجھے تو یہ کام بہتر نظر آتا ہے۔‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سلسلے میں مجھ سے بار بار تقاضا کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میری رائے بھی وہی ہو گئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو کہا کہ آپ نوجوان اور عقلمند ہیں، ہمیں آپ پر شک و شبہ کا بھی امکان نہیں۔ آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے تھے اور اب آپ ہی قرآن کا تتبع کریں اور اس کو جمع کریں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! مجھے اگر یہ لوگ پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کہتے تو یہ آسان تھا، بہ نسبت اس کے کہ میں قرآن مجید کو جمع کروں تو میں نے کہا: یہ کام آپ کیسے کرنا چاہتے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ھو واللّٰه خير ’’اللہ کی قسم یہ بہتر ہے۔‘‘ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس طرح اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا جس کے لئے ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا۔ میں نے پر قرآن مجید کی جستجو کی اور اسے کھجور کی چھڑیوں، پتوں اور لوگوں کے دلوں سے جمع کرنا شروع کر دیا حتیٰ کہ سورۂ توبہ کی آخری آیت ﴿ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ﴾ ’’مجھے ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں سے ملی جو کہ کسی کے پاس لکھی ہوئی نہ تھی۔ یہ صحیفے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے، یہاں تک ان کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بد یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور بعد ازاں اُمّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بنتِ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے۔ یہ وہ ابتدائی شکل تھی جس میں قرآن کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی۔ (صحیح بخاری: ۴۹۸۶) تدوین قرآن؛ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں: تدوین قرآن کا آخری دور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پورا ہوا۔ اس کے متعلق صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ وہ اس وقت آرمینیہ