کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 19
علما نے قرآن کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کی ہے: ھو كلام اللّٰه تعالٰي المُعجز المنزل علٰي خاتم الأنبياء والمرسلين بواسطة الأمين جبريل عليه السلام المكتوب في المصاحف المنقول الينا بالتواتر المتعبد بتلاوته المبدوء بسورة الفاتحة المختوم بسورة الناس ’’وہ اللہ تعالیٰ کا معجز کلام ہے جو خاتم الانبیاء والمرسلین پر جبریل امین علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوا، مصاحف میں لکھا گیا اور ہم تک تواتر کے ذریعہ نقل ہو کر پہنچا۔ اس کی تلاوت کارِ ثواب ہے۔ تدوین قرآن، زمانۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں: آپ کے زمانہ میں قرآن کی تدوین کا کام باقاعدہ طور پر نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف آیات نازل ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے: اسے فلاں سورت میں رکھ دو، فلاں جگہ پر رکھ دو۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آیات کی ترتیب مکمل ہوئی اور یہ ’ترتیب توقیفی‘ کہلاتی ہے۔ یعنی ایسی ترتیب جو انسانوں کے اپنے ذوق کی بجائے وحی الٰہی پر موقوف ہو۔ جہاں تک سورتوں کی ترتیب کا تعلق ہے تو علامہ سیطی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا خیال ہے کہ یہ بھی ’توقیفی‘ ہے لیکن جمہور علما اس کے توقیفی ہونے کے قائل نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن مکمل ہو چکا لیکن غیر مرتب تھا۔ لوگ مختلف آیات اور سورتوں کو پتھروں پر، کھجور کے پتوں اور چھڑیوں پر اور اسی طرح چوڑی ہڈیوں اور باریک چمڑوں پر لکھ لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک قرآن مجید کے غیر مرتب ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ زمانہ نزولِ وی کا زمانہ تھا اور نزولِ وحی کے زمانہ میں آیات کی کمی بیشی بھی ہو سکتی تھی، بعض احکام اور آیات منسوخ بھی ہو سکتے تھے۔ بعض میں کچھ اضافہ بھی ہو سکتا تھا، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآنِ مجید کو تدوینی شکل نہ مل سکی۔ تدوین قرآن؛ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں: اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید کو صحیفوں کی شکل دی گئی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیجا کہ یمامہ کے محاذ پر قراء کرام کثرت سے شہید