کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 18
انجیل کا تورات سے معمولی فرق تھا۔ اس کے بعد اس میں تحریف کا سلسلہ شروع ہوا اور اس حد تک بڑھا کہ ہر قبیلہ کی الگ الگ انجیل بنا لی گئی۔ ۳۲۵ءمیں قسطنطین نامی بت پرست عیسائیت میں داخل ہوا اور اس نے انیقہ میں عیسائیوں کا بین الاقوامی اجتماع منعقد کیا جس میں یہ طے پایا کہ چار انجیلیں رکھی جائیں اور باقی انجیلوں کو تلف کر دیا جائے۔ اور یہ اس لئے کیا گیا کہ اختلاف کو ممکن حد تک کم کیا جائے، لہٰذا ایسا ہی کیا گیا اور چار انجیلوں کو باقی رکھا گیا جو کہ متیٰ، مرقس، لوقا اور یوحنا کے ناموں سے مشہور ہیں۔ ان کا مطالعہ کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان چار انجیلوں کی باہم شکل و صورت اور موضوع بہت زیادہ مختلف ہیں، حتیٰ کہ ابتدا، انتہا، آیات اور فصول کے اعتبار سے ان کا اس قدر اختلاف ہے کہ ان کے اتحاد کی کوئی صورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور علما اس میں لفظی و معنوی دونوں طرح کی تحریف موجود ہونے کے قائل ہیں اور قرآن مجید نے خود اس کی شہادت دی ہے: ﴿ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه﴾ (المائدة: ۱۳) ’’ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔‘‘ قرآن مجید میں بکثرت آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ نے اپنی کتابوں میں تحریک کی ہے۔ اس کے متعلق مزید تفصیل کے لئے: الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح لابن تیمية کا مطالعہ مفید ہو گا۔ 3. زبور: یہ کتاب حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی اور اس کی ڈیڑھ سو آیات تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ اپنی سواری کی تیاری کے دوران ہی ان آیات کی تلاوت مکمل کر لیتے تھے۔ لیکن یہ کتاب بھی اب اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہے۔ 4. قرآنِ کریم: سب سے آخر میں ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کاب نازل ہوئی، اس کا نام قرآن ہے۔ یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کے نزول کا آغاز غارِ حرا سے ہوا اور اس کی تکمیل تئیس سال میں ہوئی۔ عمومی قاعدہ کے مطابق قرآن کا وہ حصہ جو ہجرت سے پہلے نازل ہوا ’مکی‘ اور بعد میں نازل ہونے والا ’مدنی‘ کہلاتا ہے خواہ وہ مدینہ میں نازل ہو، مکہ میں یا بیت المقدس یا کسی اور علاقے میں، سب کا سب حصہ ’مدنی‘ ہی کہلاتا ہے۔