کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 16
ہے کہ قیام اور فاتحہ کے فوت ہونے کی بنا پر رکوع کی رکعت شمار نہیں ہو گی۔ صاحب مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں:
’’والحق عندي أن من أرك الإمام راكعًا ودخل معه في الركوع لم تحسب له تلك الركعة‘‘ (۲/۱۲۹)
’’میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ جو امام کے ساتھ رکوع کی حالت میں داخل ہوا، اس کی رکعت شمار نہیں ہو گی۔‘‘
3. اس وقت اگر کوئی اجنبی آدمی موجود نہ ہو تو عورت کے لئے چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے اور کسی اجنبی کی موجودگی میں چہرے ڈھکا ہونا چاہئے لیکن بلاوجہ چہرہ ڈھانپنا محض تکلف ہے۔ پھر عام حالت کو حالتِ احرام پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ حالت احرام مخصوص افعال کی متقاضی ہے۔
4. صحیح بخاری میں وارد ہے: ((ما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا)) یعنی ’’جتنی نماز امام کے ساتھ پاؤ پڑھو اور جتنی فوت ہو جائے پوری کرو۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقتدی امام کے فارغ ہونے کے بعد جتنی نماز پڑھتا ہے وہ اس کی پچھلی نماز ہے اور جو امام کے ساتھ پڑھی وہ اس کی پہلی ہے۔ جب یہ پچھلی ہوئی و بقیہ سارا عمل پچھلی جیسا ہنا چاہئے۔ ثناء نہیں پڑھے گا، مزید ایک رکعت پڑھ کر تشہد میں بیٹھے گا۔
5. صحیح قول کے مطابق ایام مخصوصہ میں عورت قرآن کو ہاتھ لائے بغیر تلاوت کر سکتی ہے، ممانعت کی کوئی صحیح صریح نص موجود نہیں ہے۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: ’فتاویٰ برائے خواتین‘:ص۹۰