کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 10
اعلیٰ امتحانات میں اکثر و بیشتر مدارس کے طلبہ ہی امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوتے ہیں اور سالہا سال تک اسلامیات کی تعلیم دینے والے پروفیسرز بھی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ سے علومِ اسلامیہ کے میدان میں رہنمائی لیتے نظر آتے ہیں۔ ٭ دین اور اہل دین کے لئے معاشرے میں جس دائرہ میں کام کرنے کی گنجائش ہے تو اس حد تک مدارس کے فیض یافتگاں کی کارکردگی بہت نمایاں ہے۔ ان کی افادیت او دینی کردار کا تذکرہ اس سے قبل ایک مستقل مضمون میں بھی کیا جا چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک کی تمام مساجد کی خطابت و امامت، لوگوں کے روز مرہ مسائل کے فتاویٰ اور اسلامی معاشروں کی جملہ رسومات کی تکمیل مدارس کے فیض یافتگاں ہی کرتے ہیں۔ عالم اسلام میں پاکستان حفظِ قرآن کے حوالے سے اگر امتیازی حیثیت رکھتا ہے تو حفظ و تجوید کے یہ تمام مدارس نجی ہیں۔ ہر پاکستانی اگر ناظرہ قرآن پڑھ سکتا ہے تو یہ مدارس کی ہی قومی خدمت ہے۔ متعدد اسلامی علوم مثلاً علم وراثت اور علم قرأت وغیرہ کی بقاء مدارس کی ہی مرہون منت ہے۔ مدارس کے اسی مؤثر کردار کی وجہ سے حکومت بعض اہم ذمہ داریوں مثلاً رؤیتِ ہلال اور شرعی عدالت وغیرہ میں ان کی نمائندگی لینے پر مجبور ہے۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں کوئی بھی ایسا غیر سرکاری نظام نہیں ہے جو اپنے وابستگان کی تعلیم کے ساتھ ان کی جملہ ضروریات قیام و طعام، لباس اور کتب وغیرہ کا واحد کفیل ہو۔ مدارس کی مثال درخت کے تنے کی ہے جس پر کوئی پھل تو نہیں لگتا لیکن معاشرے میں پائے جانے والے جملہ دینی رجحانات یہیں سے قوتِ کار حاصل کرتے ہیں۔ تمام دینی سرگرمیاں اسی نظام کے فضلا سے براہِ راست یا بالواسطہ وابستہ ہیں، کیونکہ یہی معاشرے کا وہ طبقہ ہے جنہیں کتاب و سنت کی براہِ راست تعلیم دی جاتی ہے، ایسے ہی مسلمانوں کی چودہ صد سالہ علمی و دینی روایات کے یہی وارث ہیں۔ دینی جرائد و مجلات، دینی کتب، اسلامی مکتبہ جات، اسلامی تحریکیں، دعوتی جلسے، دینی تحریکیں اور جماعتیں مدارس کے فضلاء کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہیں۔ معاشرے میں مسلم تہذیب پر حقیقی عمل پیرا لوگ مدارس سے ہی وابستہ ہیں اور جدید تہذیب کے بالمقابل اسلامی تہذیب و ثقافت کی دعوت اُن سے اُٹھتی ہے۔