کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 9
کرنے اور اُنہیں اسلام پسندوں کو ووٹ دینے سے روکنے کو خود صدر کی انتہا پسندی قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ صدر نے مذہبی جماعتوں پر انتہا پسندی کا الزام عائد کرکے عوام کو ان سے متنفر کرنے کی مہم شروع کررکھی ہےتاکہ عوام ا ن سے سیاسی اور معاشرتی میدان میں کسی مثبت کردار کی توقع نہ رکھیں۔ اُنہوں نے اسلامی قوتوں کو جھکنے کی بجائے اُنہیں اس کردار کو عملاً اپنانے کی ترغیب دی جس کا اسلام نے اُنہیں مکلف کیا ہے۔
٭ ممتاز وکیل نثار احمدبٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ عالمی صیہونی تحریک WZO عیسائی حکومتوں کے ذریعے عالم اسلام کو زیر کرنے کے لئے دنیا میں دہشت گردی کروا رہی ہے۔اُنہوں نے امریکہ کی عراق اور افغانستان کے خلاف جارحیت کا اصل ہدف مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کو قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بڑی طاقتیں اپنا اسلحہ بیچنے کے لئے بھی دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے جنگی حالات خود پیداکرتی ہیں۔
٭ پروفیسر عبدالجبار شاکر نے خطاب کرتے ہوئے یہودیوں کو موجودہ عالمی انتشار اور امن تباہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی مثال اس مرغی کی ہے جو اپنے چوزوں کو بلی سے بچانے کے لئے اپنی چونچ کو استعما ل کرتی ہے۔ عالمی میڈیا بلی کی دہشت گردی کو نظر انداز کرکے مرغی کا اپنے دفاع کے لئے ٹھونگے مارنے کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے جبکہ دفاع کرنا ہر ایک کا حق ہے، اور اصل دہشت گرد وہ ہے جو دوسروں پر اپنے مفاد کے لئے ظلم وستم کا ارتکاب کرتا ہے۔ آج ساری دنیا کی بجائے مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام اس لئے ہے کہ وہ بد مست ہاتھی امریکہ اور اس کے حواریوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔
اُنہوں نے عالم اسلام میں سرگرم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کردار کو مشکوک اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی وجہ سے پورے ہندوستان سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن آج سینکڑوں ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں مغربی طاقتوں کے ایجنڈے پر کام کررہی ہیں جس کا نتیجہ ہمارے لیے تباہ کن ہو گا۔
اُنہوں نے مساجد اور مدارس کو دنیا میں امن کے علمبردار اور اسلام کے قلعے قرار دیتے