کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 78
اور افادیت کا احساس دلایا جائے۔ (11) حفظ وغیرہ جیسے تجدید ِمعلومات کے تمام طریقے اختیار کئے جائیں۔ ٭ اس کے بعد جناب خالد رحمن نے شرکا کو پروگرام کے جائزہ کے لئے اپنے خیالات پیش کرنے کی دعوت دی۔ ٭ تقریب میں شریک مولانا شفیع طاہر نے خاص طور پر پروفیسر حبیب الرحمن عاصم کی تقاریر کو انتہائی مفید اور موٴثر قرار دیتے ہوئے ملٹی میڈیا پروجیکٹرسے لیکچر کے دوران خواتین کی تصاویر کی پیشکش کو ہدفِ تنقید ٹھہرایا۔اُنہوں نے کہا کہ ایسے پروگرام میں ماحول کے پیش نظر مثالیں دی جائیں تو زیادہ فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ نیز سامعین کی اعلیٰ ذ ہنی صلاحیت کو سامنے رکھتے ہوئے گفتگو میں ایجاز واختصار اور اشاروں پر اکتفا کرنا بھی کافی ہوتا۔ ٭ مہمانانِ گرامی میں سے پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ عبد القادر نے پروگرام کو مجموعی اعتبار سے نہایت موٴثر اور حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے جناب خالد رحمن کے لیکچر کو سراہااور اس بات کی تائید کی کہ ﴿لاَتقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ﴾ اور(الإيمان بين الخوف والرجاء)کے تحت قوی اُمید واقعی انسانی ترقی اور نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ البتہ اُنہوں نے کہا کہ ان کے تمام خیالات سے اتفاق لازمی نہیں۔ اُنہوں نے ’طرقِ تدریس اور تعلیمی نفسیات‘ کے موضوع پر پروفیسر عاصم کے لیکچر کو بھی نہایت موٴثر قرار دیا۔ ٭ مولانا عبدالسلام ملتانی نے پروگرام کو مجموعی اعتبارسے مفید اورمعلوماتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی ورکشاپ یقیناافراد کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی ورکشاپوں میں مقررین کو مناسب ِحال مثالیں پیش کرنا چاہئیں اور ہر دو احتمال رکھنے والے الفاظ کی بجائے صریح اور واضح الفاظ کو خطاب میں ترجیح دینا چاہئے۔ ٭ مرزا عمران حیدر نے ایسے پروگرامز کے انعقاد کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے اسے باہمی افہام وتفہیم کی بہترین صورت قرار دیا۔ اُنہوں نے مدارس اوریونیورسٹیوں کے ماحول اور نصاب میں فرق کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے درمیان اس نوعیت کی ورکشاپوں کو خوب سراہا۔ ٭ اس دوران شرکامیں ایک جائزہ فارم تقسیم کیا گیا جس میں شرکا کے تعلیمی کوائف اور