کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 77
تسلی بخش جواب دے سکے ،ورنہ اسے اس منصب ِ رسالت سے سبکدوش ہوجانا چاہئے۔ (2) اُنہوں نے اپنے پنجاب یونیورسٹی کے ایک اُستاد جو دورانِ تدریس بھی جامعہ اشرفیہ اور جامعہ تقویة الاسلام، شیش محل روڈ میں پڑھنے کے لئے جاتے تھے، کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مدرّس کے لئے سیکھنے کے عمل اور سبق کے مطالعہ کو مسلسل جاری رکھنے پر زور دیا اور کہا کہ سیکھنے کا عمل درحقیقت طالب ِعلمی کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ مشہور مقولے الحكمة ضالة المؤمن يأخذ ممّن سمعها ولايبالي من أي فيه اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول :”تم یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے، دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟“ پیش کرکے انہوں نے توجہ دلائی کہ کسی بھی صاحب ِعلم سے استفادہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ (3) استاد کو چاہئے کہ طالب ِعلم کی ذہنی صلاحیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کرے۔ (4) درجہ بندی، تدریج اور ارتقا کا اُصول پیش نظر رکھا جائے۔ ایسے اُصول و قواعد نہ پڑھائے جائیں جن کا اس وقت استعمال نہ ہورہا ہو،مثلاابتدائی کلاس کا طالب علم جب صرف صغیر اور کبیرپڑھتا ہے تو پریشان ہوجاتا ہے۔ نیز طالب ِعلم کو آسان سے مشکل کی طرف لے جایا جائے مثلاً سبق کا آغاز ضَرَبَ سے کرنا ایک تو نفسیاتی لحاظ سے پریشان کن ہے دوسرا لفظ ’ض‘ مخرج کے اعتبار سے بھی مشکل ہے۔ (5) تعلیم کے لئے سننے کا فطری طریقہ اختیار کیا جائے۔ (6) غلطی پر حوصلہ شکنی کی بجائے کوشش کی حوصلہ افزائی کی جائے اور صحیح راستہ بتایا جائے۔ (7) ”ألزموا أولادكم“کے تحت اُستاد شاگرد کا باہمی تعلق اور وابستگی استوار رہنی چاہئے۔ (8) طالب ِعلم کو سوال کرنے پر اُبھارا جائے اور متعلّم بحیثیت ِمرشد نمونہ جات کے ذریعے خود سوال تخلیق کرے اور اُستاد کا سوال کرنے سے روکنا دراصل اپنی جہالت کا اعلان ہے۔ (9) طالب علم اگر سیکھنے کی غرض سے دس بار بھی سوال کرے تو استاد کو جواب دینا چاہئے کیونکہ ’تکرار ‘تعلیم و تعلّم کا بنیادی عنصر ہے۔ (10) طالب ِعلم کو بار بار حصول علم بالخصوص جو مضمون آپ پڑھا رہے ہیں ، اس کی ضرورت