کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 76
کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے ۔اُنہوں نے جنگ کے ایک شعبہ’ نفسیاتی جنگ ‘کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آج دشمن ہماری نفسیات پر اثر انداز ہونے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وہ ہماری ایٹمی صلاحیت کو ہماری غلطی اور ہماری آبادی کو ہم پر بوجھ باور کروا رہا ہے اور ہمارے اپنوں نے بھی اسے اُمید افزا اور قابل فخر کارنامہ باور کروانے کی بجائے انہی کی زبان بولنا شروع کر دی ہے۔ اُنہوں نے چین،امریکہ، برازیل وغیرہ کثیر آبادی والے ترقی یافتہ ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ ترقی اور آبادی میں منفی تعلق تلاش کرنا غلط ہے۔اُنہوں نے پاکستان کی کثرتِ آبادی اور اس میں امریکہ اور جاپان وغیرہ ممالک کے مقابلے میں نوجوان آبادی کے تناسب کا زیادہ ہونا، سمندری بندرگارہوں اوردنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو‘، چاروں موسموں کا وجود، ہر طرح کی زمین، ہر قسم کی فصل، پھر سب سے بڑھ کر خاندانی ادارہ کا مستحکم ہونا جیسے امتیازات کو پاکستان کی اہم خاصیات قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں شہد کی مکھی کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں روشن پہلووٴں کو اُجاگر کر کے نوجوان نسل میں اُمید کی کرنیں ر وشن کرنا چاہئیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دشمن ترقی کے پیمانے تبدیل کر کے ہمیں احساسِ کمتری میں مبتلا کرناچاہتا ہے تا کہ ہم مایوس ہو کر ہر معاملہ میں ان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں پروپیگنڈہ کا شکار ہونے کی بجائے دل ودماغ میں وسعت پیدا کرنا ہوگی اور مغرب کے متعارف کردہ ترقی کے پیمانوں پر از سر نو غور کرنا ہوگا۔اُنہوں نے واضح کیا کہ ہمیں معاشرہ کو دونوں رخ دکھانے چاہئیں اور برائیوں کے پہلو بہ پہلو اچھائیوں کا ذکر بھی ہونا چاہیے تا کہ ہماری نسل نا اُمید ہو کر معاشرہ کا عضو ِمعطل بننے کی بجائے پر اُمید ہو کر نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ میدانِ عمل میں ا پنا کردار ادا کرنے کے قابل بن سکے۔ اس لیکچر کا مرکزی موضوع ’اُمید افزا رجحانات کی تلاش اور تعمیری طرزِ فکر کی کوشش‘ رہا۔ ٭ اس کے بعد پروفیسر حبیب الرحمن عاصم نے ’طرقِ تدریس‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے معلم کے لئے ضروری قرار دیا کہ (1) وہ اپنے فن کاماہر ہو۔ اس کے پاس علم کا اتنا سرمایہ موجود ھو کہ وہ طلبا کے سوالات کا