کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 75
نفرت پیدا کردے۔ اُنہوں نے قرآن وسنت کی رُو سے سزا کے درج ذیل آداب بیان کئے : (1) چہرے پر نہ مارا جائے کہ یہ انسانیت کی توہین ہے۔ (2) سزا دینے کے فوراً بعد طالب ِعلم کو کچھ پڑھانے کی بجائے اسے سوچنے کی مہلت دیں کہ اسے سزا کیوں ملی ہے ؟ تاکہ اس کے اندر سے نفرت کے جذبات ختم ہوجائیں۔ (3) طالب علم کو بطورِ سزا کلاس سے نہ نکالا جائے۔ (4) نفسیاتی سزا میں بچے کو غربت اور باپ کے پیشہ کا طعنہ نہ دیا جائے۔ باپ کی اہانت جسمانی سزا کے مقابلہ میں بچے کو زیادہ ردِعمل کا شکار بنا سکتی ہے۔ (5) بچے کو گالی نہ دی جائے،ورنہ وہ دل میں یا خالی کمرہ میں اونچی آواز میں اُستاد کو گالی دے گا۔ اُستاد ایک نمونہ اور کلاس کا بادشاہ ہوتا ہے اورطلبا اس کے طرزِ تکلم، بیٹھنے، اُٹھنے غرض ہر انداز کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ (6) حکمت کے ساتھ طلبہ کو کوتاہی پر توجہ دلائی جائے۔ اگر دو بچے باتیں کررہے ہوں تو اُنہیں یہ کہہ کر ندامت کا احساس دلائیں : ہمیں بھی بتاؤ کہ تم کیا مفید باتیں کررہے تھے؟ اس کے بعد اُنہوں نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے امتحان میں نقل کے رجحان کو کم کرنے کا علاج یہ بتایاکہ پرچہ تخلیقی انداز کا ہو کہ محض رٹا کام نہ آسکے، نیز پرچہ نہ بالکل تفصیلات وتشریحات کا محتاج ہو اور نہ ہی کلی طورپر معروضی اور اشاراتی۔ اُنہوں نے طلبا کے لئے جرمانہ کے طریقہ کو اُستاد کی عزت میں کمی اور شاگردوں کی سبق سے غیر حاضری کا باعث قرا ردیا۔ ٭ نمازِ ظہر کے بعد شرکا کے لئے پرتکلف ظہرانہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جہاں سے واپسی کے بعد 00:2 بجے پروگرام کے تیسرے سیشن کا آغاز قاری حمزہ مدنی کی تلاوت ِکلام مجید سے ہوا ۔ ٭ بعد ازاںIPSکے ڈائریکٹر جناب خالد رحمن نے ’شخصی واداراتی نشوونما‘ کے موضوع پر اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ترقی اور نشوونما کے حصول میں قوی اُمید کو اہم عنصر قرار دیا۔ اُنہوں نے صبح کے وقت فٹ پاتھوں پر بیٹھے ہوئے مزدوروں کی ایک تصویر کے تناظر میں یہ واضح کیا کہ اُمید انسان کو اقدام پر اُبھارتی اور نا اُمیدی انسان کو بے کاری اور گو مگو کی