کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 74
کی تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ اُنہوں نے سورة العلق کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں۔ ٭ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادکے شعبہٴ عربی کے پروفیسر حبیب الرحمن عاصم نے ’تعلیمی نفسیات‘ کے موضوع پر انتہائی موٴثر خطاب کیا۔ اُنہوں نے قرآن و سنت کی نصوص سے استدلال کرتے ہوئے دل و دماغ کو جسم انسانی اور تمام قوتوں کا مرکز، فلاح وصلاح کا اہم ذریعہ، جسم کے ہر عمل کا مرہونِ منت، علم کا اہم ماخذ اور احساسات و خیالات کا منبع قرار دیا۔اُنہوں نے دیگر اعضا کے برعکس دل و دماغ کو ہر قید اور پابندی سے آزاد قرار دیتے کہا کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی کوئی ایسا آلہ ایجاد نہیں ہوسکا جو دل و دماغ کے احساسات اور نفسیات کو ماپ سکے۔ اُنہوں نے خوف و جبراور اِکراہ کی بجائے محبت و شوق کو دل ودماغ کے مختلف احساسات و خیالات کو قابو کرنے کا اہم محرک قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ کامیاب وہ استاد ہے جو طلبا کے دل ودماغ میں علم کی لگن اور شوق پیدا کردے کیونکہ دنیا میں جن لوگوں نے بھی کائنات کے لئے مفید علمی، تاریخی اورسائنسی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، ان کی زندگی میں جبرواِکراہ کی بجائے، محبت و لگن کی داستانیں ہی بکھری نظر آتی ہیں۔ اُنہو ں نے کہا کہ قرآن وسنت، فقہ، فلسفہ ، طب اور دیگر علوم کی ترقی، ایک ایک حدیث کی خاطر سینکڑوں میلوں کا سفر، حکومت کے جبرکی بجائے لگن اور شوق کا ہی مرہونِ منت ہے۔ اس کے بجائے حکومتی جبر واکراہ کی بنیاد پر بننے والی دیوارِ چین اور اہرامِ مصر سے سوائے سیاحت اور معمولی آمدن کے دنیا کو کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اُنہوں نے شاگرد کے ساتھ محبت کے رویہ کو اسلاف کا شعار قرا ردیتے ہوئے کہا کہ قرآن و سنت میں علم، معلم اور متعلّم کی فضیلت کا مقصد بھی یہی ہے کہ معلم میں سکھانے کا شوق اور متعلّم میں سیکھنے کی لگن پیدا ہوجائے۔ ٭ اس کے بعد اُنہوں نے ’اسلام میں سزا کے تصور‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سزا بذاتِ خود مقصود نہیں ہے بلکہ اس کامقصد طلبا کو تنبیہ اور غلطی کا احساس دلانا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ سزا دیتے ہوئے ایسا طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو شاگر د میں اُستاد اور مضمون کے خلاف