کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 73
نشوونما کا عمل مسلسل جاری و ساری ہے، اس وقت تک کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اپنی منزل، ہدف اور اس تک پہنچنے کے لئے وقت کا تعین نہیں کرلیتا۔ اُنہوں نے کہا کہ جب آدمی یہ سوچنا چھوڑ دے کہ میں نے دس سال بعد کیا بننا ہے تو اس کی نشوونما کا عمل رُک جائے گا لیکن اگر منزل متعین ہو اور اس تک پہنچنے کے لئے وقت بھی متعین ہو تو آدمی اس کے حصول کے لئے اپنی صلاحیتیں صرف کرے گا اور ناکامی کااحساس اسے مضطرب اور بے چین کردے گا۔ اُنہوں نے ہر فرد کے لئے حیاتِ مستقبل کا ایک چارٹ تشکیل دینا ضروری قرا ردیا کہ جس میں منزل کے تعین کے ساتھ ساتھ اس کے لئے درکار وقت، راستہ میں حائل رکاوٹوں اور ان کے حل اور وسائل کی فراہمی کا تعین پر کا فی غور و خوض کیا گیا ہو۔ اُنہوں نے معاشرتی اور سیاسی خرابیوں کے ساتھ گزارا کرنے اور بے نیازی کے رویہ کی مذمت کرتے ہوئے مزاحمتی اور تخلیقی رویہ کو مستحسن قرار دیا اور کہا کہ آج مغرب کی کامیابی اسی رویہ کی مرہونِ منت ہے جو مستقبل میں پیش آمدہ خطرات کی بو سونگھ کر ان کی گردن مروڑتے یا ان کے مقابلے میں کسی اور کو کھڑا کردیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دین کا تحفظ ہی تمام تر مقصود نہیں بلکہ یہ تحفظ ایک بڑے مقصد کے حصول کے لئے ہے اور وہ مقصد غلبہ اسلام ہے۔ روز بروز معاشرہ میں برائی اور انتشار کے رجحانات میں اضافہ ہمیں غور وفکر پر مجبور کرتا ہے کہ دینی مدارس اپنے کردار میں مزید تاثیر پیدا کریں۔ ہمیں برائی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دشمن کی یلغار قرار دے کر اس پر مطمئن ہونے کی بجائے بہتر کردار کے لئے مضطرب، بے چین اور کوشاں ہوجانا چاہئے۔اُنہوں نے واضح کیا کہ ہمیں تصاویر کے تمام رُخ اور اس کے ہر پہلو کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے اختلافات میں وسیع نظری پیدا کرنا چاہئے۔ اس لیکچر کا مرکزی خیال ’زندگی کے اہداف کا تعین اور اس کے لئے نظام الاوقات ‘ اور ’دور اندیشی کے ساتھ مستقبل کا جائزہ لے کر اس کے لئے موزوں حکمت ِعملی‘ وضع کرنا رہا۔ 30:11بجے چائے کا وقفہ ہوا ،جس میں شرکا کی چائے اورمفرحات سے تواضع کی گئی۔ ٭ پروگرام کے دوسرے سیشن کا آغاز قاری احمد میاں تھانوی نائب مہتمم دار العلوم اسلامیہ