کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 72
﴿فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوْا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ﴾ کا انتخاب کیا، جس میں دینی علوم کے حصول کی ترغیب اور حاملین کتاب و سنت کے اصل مشن کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ 30:9 بجے پروگرام کے سٹیج سیکرٹری جناب راشد بخاری نے مدارسِ دینیہ کی خدمات اور اس کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے …جن کی بدولت آج مملکت ِخداداد میں دین کی جھلک نظر آتی ہے … پروگرام کے اغراض و مقاصد کو مختصراً بیان کیا۔ ٭ اس کے بعدجناب خالد رحمن (ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز) سٹیج پر تشریف لائے۔اُنہوں نے آغاز میں، 1979ء سے قائم شدہ اپنے ادارے کا مختصر تعارف،مقاصد، مشن، بنیادی کردار، تحقیقی اور تعلیمی سرگرمیاں، دینی مدارس پر سیمینارز اور دینی مدارس پر اپنی شائع کردہ کتب کی بعض تفصیلات پیش کیں۔ اپنے موضوع پر بات شروع کرنے سے پہلے اُنہوں نے ورکشاپ کے شرکا: مدارس کے منتظمین اور اساتذہ کو مدارس کی موجودہ صورتِ حال پر باہم تبادلہ خیالات اور اس کے متعلق تجاویز پیش کرنے کی دعوت دی۔ شرکا نے ملتے جلتے خیالات و رجحانات کا اظہار کیا جن کا لب ِلباب یہ تھاکہ مدارسِ دینیہ نے نا گفتہ بہ حالات میں بھی ہر میدان میں کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں ،لیکن دورِ حاضر کے بدلتے تقاضوں اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مدارس کے کردار کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اُنہوں نے ان رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا جو مدارس کے موٴثر کردار ادا کرنے کے سامنے مانع ہیں ،مثلاً دینی نظام تعلیم کے مدمقابل ایک ایسے نظامِ تعلیم کو کھڑا کردیا گیا جو خالصتاً مادّی بنیادوں پر استوار ہے اور اسلامی علوم کا رشتہ جملہ معاشرت سے کاٹ دیا گیا۔ ایسے ہی نظریاتی مملکت پاکستان کے قیام کے باوجود حکومت نے دینی تعلیم کی ذمہ داری کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ اس کے عملی کردار کو ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ خالد رحمن صاحب نے اپنے خطاب کا آغاز تعلیمی نظام پر اہم کتب کی نشاندہی کے علاوہ بعض مدارس کی نمایاں سرگرمیوں کے تعارف سے کیا۔ اُنہوں نے شخصی و ادارتی نشوونما کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مختلف مثالوں اور تصاویر کی مدد سے ثابت کیا کہ انسان جس کی