کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 7
کامیابی کا منہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھراُنہیں صحابہ کرام حضرت خالد، ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور مسلم جرنیلوں طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ ، موسیٰ بن نصیر رحمۃ اللہ علیہ کے کردار کو نمونہ اور نقش پا بنانا ہوگا۔ ٭ روزنامہ نوائے وقت کے کالم نگار، ممتاز صحافی جناب عطاء الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے مختلف پہلووٴں اوراس کے اصل اسباب و محرکات کا ذکر کرتے ہوئے علما کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے دہشت گردی کے اصل منبع اور وجوہات کی نشاندہی کرنے کی تلقین کی۔ اُنہوں نے کہا کہ سب سے خوفناک صورت دہشت گردی ’ریاستی‘ ہوتی ہے جس میں جاسوسی کا نظام اہم کردار اداکرتا ہے اور آج امریکہ کی سی آئی اے نے پوری دنیا پر دہشت گردی کا جال پھیلایا ہے۔اُنہوں نے لندن کے دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے اس کے اسباب و محرکات کو ختم کرنے پر زور دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ آج اُمت ِمسلمہ پر ظلم کی انتہا کردی گئی ہے اور اسلامی حکومتیں جہاد کا علم بلند کرنے کی بجائے امریکہ کی فرنٹ لائن بن گئی ہیں ،ان حالات میں اگر کوئی رد ِعمل میں اُٹھ کر دھماکے کردے تو اسے مطعون کیوں کیا جاتا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ 1947ء تا 1958ء تک آئینی سول حکومتیں رہیں، اس دوران کوئی مذہبی اور لسانی دہشت گردی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد فوجی حکومتوں نے سیاسی جماعتوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے ایم کیو ایم، سپاہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور سپاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ جیسی جماعتوں کو فروغ دیا اور ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا جس سے فائدہ اٹھا کر ’را‘ اور ملک دشمن عناصر نے بھی اپنی کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔ ٭ تقریب کے صدر، چیئرمین سینٹ جناب محمد میاں سومرو نے اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ دہشت گردی کے واقعات عالمی امن کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں۔اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور یہ انسانی جان کے احترام کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ اُنہوں نے قرآنِ مجید کی مختلف آیات کے حوالے سے اسلامی موقف کو واضح کیا۔ اُنہوں نے حکومت ِپاکستان اور ملت ِاسلامیہ کے اس موقف کو بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا جو وہ دہشت گردی کے ان واقعات کی مذمت میں پیش کرتے ہیں۔آخر میں اُنہوں نے اُمت کو اس صورتحال کے