کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 69
معذور خیال کیجئے، کیونکہ بسا اوقات دلائل واضح ہونے کے باوجود بھی بوجہ تعارض یا کم فہمی مخاطب انہیں اختیار نہیں کرپاتا۔ ایسے موقع پر اس کو رعایت دینا چاہئے۔ جیسے جنبی شخص کے لئے تیمم کے بارے میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تکرار کتب ِحدیث میں مذکور ہے۔ عمار رضی اللہ عنہ اپنے موقف پر قائم بھی ہیں، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کا احترام کرتے ہیں ۔ ٭ اسی طرح اختلاف کے باوجود بھی فریق مخالف کا اکرام و احترام دل سے ہرگز نہ کم ہو، جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا دادا کی وراثت کے مسئلہ پر اختلاف کرنااور آپس میں دلائل پیش کرنے میں تیزی و تکرار کا مظاہر ہ کرنا حتیٰ کہ ابن عباس کہتے ہیں: ألايتقي الله زيد يجعل الابن ابنا ولايجعل الأب أبا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے موقف کے درست ہونے پر چیلنج بھی کرتے ہیں مگر جب ملاقات ہوتی ہے توانتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کی وفات پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتے ہیں اور ایسی بے شمار مثالیں سلف صالحین کی زندگی میں موجود ہیں۔ ٭ اور بسا اوقات زیر بحث مسئلہ کثیر الجہت ہوتا ہے تو اپنا موقف بیان کرنے کے بعد دوسرے کے موقف کے بارے میں بھی وسعت ِظرفی اختیار کی جائے۔اور اختلاف کو تفرد اور فرقہ بندی کی بنیاد نہ بنایا جائے،جیسا کہ بنو قریظہ کے واقعہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا رویہ ہمارے لیے راہنمائی فراہم کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا: (لا يصلين أحد العصر إلا فى بني قريظة) (صحیح بخاری:4119) ” تم میں سے ہر شخص بنو قریظہ قبیلہ میں جا کر عصر کی نماز پڑھے۔“ تو اس فرمان کے مفہوم میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی آراء میں اختلاف ہوگیا،لیکن صحابہ نے اس بنیاد پر تفرد اور فرقہ بندی کی روش اختیار نہیں کی اور پھر بعد میں نبی نے دونوں آرا کو درست قرار دیا۔ ٭ اسی طرح کسی بحث میں فریق مخالف سے کوئی محتمل بات ہوجائے تو اس کو اچھے مفہوم پر ہی محمول کریں۔ بلا وجہ اپنی طرف سے غلط مفہوم نکالتے ہوئے طعن و تشنیع یا بدگمانی کا شکار نہ ہوں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا : ولا تظنن بكلمة خرجت من أخيك المؤمن إلا خير وأنت تجدلها في