کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 68
”کیا یہ بدکاری تم اپنی بہن کے لئے پسند کرتے ہو؟“ نوجوان نے کہا: ہرگز نہیں، ربّ کی قسم! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ نے فرمایا :کہ لوگ بھی تو اپنی بہنوں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا: (أفتحبه لعمتك) ”کیا تم ایسا فعل اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرو گے؟“ نوجوان: ہرگز نہیں، ربّ کی قسم! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ نے فرمایا تو پھر لوگ بھی تو اپنی پھوپھیوں سے ایسا فعل پسند نہیں کرتے۔ آپ نے پوچھا: (أفتحبه لخالتك) ”کیا ایسی بدکاری اپنی خالہ کے لیے پسند کرتے ہو؟“ نوجوان : ہرگز نہیں، ربّ کی قسم !اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ تو آپ نے فرمایا : لوگ بھی تو اپنی خالاوٴں کے لئے ایسا پسند نہیں کرتے۔ پھر آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھتے ہوئے دعا فرمائی: (اللهم اغفرذنبه وطهّر قلبه وحصّن فرجه) ” اے اللھ ! اس کا گناھ معاف فرما دے، اس کے دل کوصاف کر دے اور اس کی شرمگاھ کو محفوظ فرما۔“ (مسند احمد:21708) راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد وہ نوجوان ایسی چیزوں کی طرف دھیان بھی نہیں کرتا تھا۔ ایسے واقعات بکثرت موجود ہیں، اس لئے آداب و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے حوار کے ذریعے ابطالِ باطل اور احقاقِ حق بڑے اچھے طریقے سے ہوسکتاہے۔ حوار کے بعد قابل لحاظ اُمور نیز یاد رکھئے کہ اپنانقطہ نظر مدلل اور دل نشین انداز میں پیش کرنے کے بعد بھی چند آداب کو ضرور ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ ٭ جہاں دلائل احتمالی ہوں وہاں تعصب وتنگ نظری ،دوسرے پر اپنی رائے کو مسلط کرنا اور دوسرے سے حق اختلاف چھین لینا درست نہیں ہے۔گفتگو اور دلائل پیش کردینے کے بعد اگر فریق مخاطب آپ کی بات تسلیم نہ کرے تو زبردستی اس پر اپنی رائے کو مسلط نہ کریں، اسے