کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 67
تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور رفاقت کا شرف حاصل ہے اور تم اپنے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر جارہے ہو۔ یہ ایسی پرتاثیر گفتگو اور حوار تھا کہ انصاریوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور داڑھیاں بھیگ رہی تھیں۔(مسند احمد:11333) الغرض ایک پیدا ہونے والی خلش اور غلط فہمی کو ایسے حکیمانہ گفتگو سے دور فرمایا کہ منفی اثرات کی بجائے مثبت اثرات اور ایمان میں پختگی نصیب ہوئی۔ (11)اسی طرح بسا اوقات مخاطب اپنی کج فہمی، کم علمی اور جہالت کی بنا پر انتہائی گرا ہوا سوال کر دیتا ہے تو ایک دانا مربی اور سمجھ دار داعی کا کام یہ ہے کہ حسن کلام اور حکمت کے ساتھ اس کی اصلاح کرے، اس کے بغیر کوئی دوسرا طریقہ موٴثر ثابت نہیں ہوسکتا۔چنانچہ کتب ِحدیث میں اعرابی و گنوار لوگوں کا آقا کی خدمت میں حاضر ہونا اور تلخ و کج گفتگو کرنا ، اوراس کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکیمانہ اسلوب گفتگو اور مکالمہ کہ وہ جاہل گنوار کائنات کے راہنما اور مربی بن گئے، ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔چنانچہ حضرت ابو ا مامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے بدکاری کی اجازت دے دیجئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کے سوال کی قباحت و شناعت پر تعجب کرتے ہوئے اسے ڈانٹا ، لیکن نبی اکرم نے صحابہ کو روکا اور اسے اپنے قریب کر کے نہایت حکیمانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے اس سے پوچھا: (أتحبه لأمك) ”کیا تم ایسی بدکاری کا فعل اپنی ماں سے پسند کرتے ہو۔“ نوجوان: ہرگز نہیں، ربّ کی قسم! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے۔ آپ نے فرمایا: تو پھر لوگ بھی اپنی ماوٴں کے ساتھ بدکاری پسند نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا: (أتحبه لابنتك) ”ایسا فعل تم اپنی بیٹی سے پسند کرتے ہو۔“ نوجوان : ہرگز نہیں، ربّ کی قسم! اللھ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے۔ آپ نے فرمایا:لوگ بھی تو اپنی بیٹیوں کے لیے ایسا ہرگز پسند نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا: (أتحبه لأختك)