کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 66
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوۂ حنین میں انصار سے حوار انتہائی عبرت آموز ہے۔ مالِ غنیمت آپ نے قریش کے نو مسلموں میں تقسیم کردیااور انصار کو کچھ بھی نہیں دیا۔انصار کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہوا کہ فتوحات ہم نے کی ہیں اور آپ نے سارا مال قریش کو دے دیا ہے، چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ شکایت لے کر دربارِ نبوی میں حاضر ہوئے کہ قوم یہ کہتی ہے۔ آپ نے فرمایا: اے سعد بن عبادہ! آپ کا کیا خیال ہے؟ سعد نے عرض کیا کہ میں بھی اسی قوم کا فرد ہوں۔ آپ نے موقعہ کی نزاکت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انصار کو ایک جگہ جمع کیا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”تم گمراہ تھے، اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے تمہیں ہدایت دی۔ تم فقیر تھے، میرے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں غنی کردیا۔ تم دشمن تھے، اللھ تعالیٰ نے میرے سبب تمہارے دلوں میں محبت واُلفت ڈال دی۔اے جماعت ِانصار! تم جواب کیوں نہیں دیتے؟“ انصار کہنے لگے : ”ہم کیا جواب دیں؟ تمام فضل وکرم اور احسان و نعمت یقینا اللہ اور اس کے رسول کا ہی مرہونِ منت ہے۔“ آپ نے فرمایا: ”ربّ کی قسم! اگر تم چاہو تو (جواباً) کہو اور جو کہو گے، سچ کہو گے اور تمہاری بات کی تصدیق بھی کی جائے گی۔ تم کہو(أتيتنا مُكذَّبًا فصدقناك ومخذولا فنصرناك وطريدًا فآويناك وعائلًا فاغنيناك )”مکہ والوں نے آپ کی تکذیب کی تو آپ ہمارے پاس آئے، ہم نے آپ کو برحق رسول تسلیم کیا۔ آپ بے یارومددگار تھے تو ہم آپ کے دست بازو بنے، آپ ٹھکرائے ہوئے آئے تھے تو ہم نے اپنے گھر پیش کئے، آپ دنیا کی متاع سے خالی ہاتھ تھے تو ہم نے مال نچھاور کردیا۔“ اگر آپ انصاری حضرات یہ باتیں کہو تو یقیناً برحق ہیں اور میں بھی ان کو تسلیم کروں گا۔“ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل مسئلہ کی حقیقت کو واضح فرمایا کہ بحمداللھ، تم تو سچے پکے ایمان دار ہو اور میں نے یہ دنیا کی دولت صرف ان کو دے دی ہے جو ابھی نئے مسلمان ہوئے ہیں، ان کی تالیف قلبی کی ہے کہ وہ ایمان واسلام میں پکے ہوجائیں۔ اور کیا آپ کو یہ پسند نہیں ہے کہ لوگ مال و متاع کے ساتھ گھروں کو لَوٹ رہے ہیں اور