کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 65
عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوْا إلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا﴾ پھریہ قافلہ کوفہ پہنچا، اہل کوفہ کا گروہ اس قتل و لوٹ مار، عورتوں اور بچوں کو قید کرکے غلام بنانا درست نہیں سمجھتا تھا۔ تو کیا اس اختلاف کی وجہ سے دونوں گروہ ایک دوسرے سے برأت اختیا رکرگئے تھے، ایک گروہ نے دوسرے پر لعنت کی تھی۔ خوارج: نہیں ایسا نہیں ہوا عمر رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ : اس اختلاف کے باوجود تم دونوں سے محبت کرتے ہو؟ خوارج : کیوں نہیں، ضرور ہم دونوں سے ہی محبت کرتے ہیں۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ : جب تم اس اختلاف کے باوجود نہ برأت کا اظہار کرتے ہو اور نہ ہی لعنت کرتے ہو تو پھر مجھ سے کیوں مطالبہ کرتے ہو کہ میں اس اختلاف کی وجہ سے اپنے پیش رو، اہل خانہ سے برأت کا اعلان کروں اور ان پر لعنت کروں۔کیا دین میں ایسا کوئی معیار ہے کہ ایک کام تمہارے لئے جائز ہو اور میرے لئے ناجائز؟ اچھا یہ بتاوٴ کہ کسی مستحق لعنت پر’ لعنت‘ کرنے کا کیا حکم ہے۔ کیا یہ فرض ہے یا مستحب؟ خوارج : فرض ہے۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ : ایک خارجی کو مخاطب کرکے : بھائی! تمہیں کتنی مدت ہو گئی ہے، فرعون پر لعنت کیے ہوئے؟ خوارج : اس نے جواب دیا کہ ایک لمبا عرصہ ہوگیا ہے۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ : فرعون تو کفر کا سرغنہ تھا اور پھر تم نے اتنی دیر سے اسے لعنت نہیں کی۔اور میرے اہل بیت جن میں نیکوکار بھی تھے اور گنہگار وخطا کار بھی اور درست صحیح کام کرنے والے بھی تھے لیکن لعنت کے لئے مجھ سے کیوں مطالبہ کرتے ہو کہ میں فوراً لعنت کروں۔ حضرت عمر رحمۃ اللہ علیہ کے اس استدلال و حوار کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سارے خوارج تائب ہوکر راہ راست پر آگئے۔ملاحظہ ہو جامع بيان العلم وفضلہ: 2/105 (10)بسا اوقات حوار اپنے ہی ہم خیال سے ہوتا ہے۔ کسی ایک جانب غلطی ہوتی ہے تو وہاں دوسرے کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے احساس بیدار کیا جائے کہ تم نے غلطی کی ہے۔