کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 64
خوارج: وہ تو اُمت کے سب سے افضل لوگ تھے۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : آپ کو معلوم ہے کہ نبی کی وفات کے بعد مرتدین اور منکرین زکوٰة سے جنگیں ہوئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مخالفین کو قتل کیا اور مال ضبط کیا اور عورتوں، بچوں کو قیدی بنایا؟ خوارج : بالکل درست ہے، اسی طرح ہوا۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : کیا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اُنہوں نے ان بچوں اور عورتوں کوآزاد کردیا تھا؟ خوارج : درست ہے، آزاد کردیا تھا۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : کیا اس اختلاف کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، ابوبکر رضی اللہ عنہ سے لاتعلق ہوگئے تھے؟ خوارج : ہر گز نہیں۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : اس اختلاف کے باوجود آپ کیا ان دونوں سے محبت کرتے ہو؟ خوارج : ہاں، دونوں سے محبت کرتے ہیں۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : بلال بن مرداس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ خوارج : وہ ہمارا بہترین شخص ہے۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : تمہیں معلوم ہے کہ بلال بن مرداس مخالفین کا قتل اور ان کا مال لوٹنا وغیرہ درست نہیں سمجھتا تھا اور نہ ہی عملاً ایسا کرتا تھا جبکہ اس کے ساتھی خوب قتل گری اور لوٹ مار کرتے تھے ۔ اس اختلاف کے باوجود کیا تمہارا آپس میں اختلاف پید اہوا تھا؟ خوارج: نہیں، ہرگز نہیں۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : اس اختلاف کے باوجود تم دونوں سے محبت کرتے ہو؟ خوارج : ہاں عمر رحمۃ اللہ علیہ : مجھے عبداللہ بن وہب الراسبی کے متعلق بتاؤ، جب وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر بصرھ سے کوفہ آیا تھا تو راستہ میں عبداللہ بن خباب کے پاس سے گزرا تو اُنہوں نے عبد اللہ کو قتل کردیا اور اس کی لونڈی کا پیٹ چاک کردیا۔ پھر اسی طرح یہ لوگ بنو قطعیہ پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے آدمیوں کو قتل کیا، مال لوٹا، بچوں کو قیدی بنایا اور بچوں کے قتل و قید کے متعلق قرآن پاک کی اس آیت سے استدلال کیا: ﴿إنَّكَ إنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا