کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 63
” کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا تھا...“ یہاں اُنہوں نے کس آسان انداز سے مخاطب کے شبہ کا ردّ کیا ہے اور شافی جواب سے اسے خاموش کردیا ہے۔صحابہ کرام اور علماے سلف کی گفتگو ایسی مثالوں سے لبریز ہوا کرتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا آپس میں کئی مسائل میں گفتگو کرنا کتب ِاحادیث میں مذکور ہے، مثلاً طلاقِ بائن میں بیوی کے لئے نان و نفقہ سے متعلق فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حوار، حدیث (إن الميت ليُعذب ببكاء أهله عليه) کے معنی سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ،عمرو بن عثمان رضی اللہ عنہ اورسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حوار وغیرہ موجود ہے۔ بالخصوص خوارج سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مکالمات انتہائی خوبصورت مثال ہیں۔ ایسے ہی سیدنا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا خوارج سے مکالمہ انتہائی پُرتاثیر ہے ،جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت و اخلاق، دیانت و امانت، عدل و انصاف کس سے مخفی ہے؟ خوارج بھی اس کا اعتراف کرتے تھے۔ اب ان کے مابین نقطہ اختلاف یہ بن گیا کہ اگر آپ کا طریقہ صحیح ہے تو آپ کے پیش رو خلفا و امرا کا طریقہ غلط تھا۔ آپ ان سے برأت کا اعلان کریں اور ان پر لعنت کریں۔ اگر ایسا کریں گے تو ہم آپ کی اطاعت قبول کریں گے ورنہ نہیں۔ حضرت عمر رحمۃ اللہ علیہ انتہائی نرمی سے جواب دیتے ہیں اور ان میں جذبہ محبت و نرمی اُجاگر کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ میں بخوبی آپ کی محنت و کاوش سے آگاہ ہوں کہ آپ نے گھر بار اور اپنے مال و اولاد کو چھوڑ رکھا ہے اور جنگ و قتال کے درپے ہیں کیونکہ آپ اس کو صحیح سمجھتے ہیں،لیکن میرے نزدیک آپ کو اسے سمجھنے میں غلطی لگی اور راہ حق سے دور چلے گئے ہیں۔ اس کے بعد عمر رحمۃ اللہ علیہ اور خوارج کے درمیان درج ذیل گفتگو ہوتی ہے۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : بتائیے دین ایک ہے یا متعدد؟ خوارج : ایک ہے۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : کیا دین میں کوئی ایسا کام ہے جوتمہارے لئے جائز ہو اور میرے لئے ناجائز ؟ خوارج: ہرگز نہیں، سب کے لئے یکساں اور برابر ہے۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ : آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟