کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 62
طرف تو یہ آواز ہے کہ کسی کو غلط نہ کہو، سب صحیح ہے حتیٰ کہ ادیانِ باطلہ کو مصنوعی روا داری کے نام پر صحیح اور درست کہا جارہا ہے تودوسری طرف حق پرستی کے دعویٰ کے ساتھ ساتھ تعصب وعناد اور فریقِ مخالف کو برداشت کرنا تو دور کی بات رہی، اس پر طرح طرح کے الزامات اور کفر وارتداد کے فتوے لگانے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ صراطِ مستقیم اس کے درمیان ہے۔ اگر حق و باطل کو واضح کرنا اور گمراہی و ہدایت میں فرق کرنا ضروری اور لازمی امر ہے تو اختلافِ رائے کی صورت میں اعتدال کی راہ پر قائم رہنا بھی اتنا ہی ضروری اور لازمی ہے لہٰذا اس سلسلہ میں حکمت اور موعظہ حسنہ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ فرمان الٰہی ہے : ﴿وَلَا تُجَادِلُوْا أَهْلَ الْكِتَابِ إلَّابِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ﴾ (العنکبوت:46) ”اہل کتاب سے کسی بہتر انداز ہی میں بحث کرو۔“ احقاقِ حق میں بھی دراصل مخاطب کی خیرخواہی ہی مقصود ہوتی ہے۔ حوار کوئی محض مناظرہ بازی، عقلی کشتی اور ذہنی دنگل نہیں ہوتا کہ اس میں جیت اور ہار ہی کی بنیاد پر بات ہو۔ اس لئے حوار میں نرم گفتگو، مناسب کلمات اور مخاطب کے مرتبہ کا لحاظ بھی ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ انبیاے کرام علیہم السلام کو بھی ان آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔چنانچہ موسی علیہ السلام کو فرعون سے گفتگو کے لیے بھیجتے ہوئے ہدایت کی گئی کہ ﴿ فَقُوْلَا لَه قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّه يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشىٰ﴾ (طہ:44) ” اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے ۔“ (8) اسی طرح کوشش کی جائے کہ گفتگو میں فریق مخالف کی حمیت و تعصب کو بھی اٹھنے نہ دیا جائے، کیونکہ اس طرح مکالمہ و گفتگو اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَاتَسُبُّوْا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ فَيَسُبُوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ”ان کے معبودانِ باطلہ کا بھی بدزبانی سے تذکرہ نہ کریں، کیونکہ حمیت و تعصب میں وہ معبودِ حق کے لئے نازیبا الفاظ کہے گا۔“(الانعام:109) (9) مخاطب سے اس کی ذہنی استعداد کے مطابق عقلی اور آسان دلائل سے بات کریں۔ نمونہ کیلئے جناب ابراہیم علیہ السلام کا حوار ہمیشہ سامنے رہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : ﴿أَلَمْ تَرَإلَى الَّذِيْ حَآجَّ إبْرَاهِيْمَ فِيْ رَبِّهِ...الآية﴾ (البقرة:258)