کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 61
کرے۔“ (صحیح سنن النسائی:4303) ٭ ایک دوسری حدیث میں ہے : عن كعب أنه تقاضى ابن أبي حدرد دينا كان عليه فارتفعت أصواتهما حتى سمعها رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وهو في بيته فخرج إليهما فكشف ستر حجرته فنادىٰ( يا كعب) قال: لبيك يارسول الله قال: (من دينك هذا) وأوما إلىٰ الشطر قال: قد فعلت قال( قم فاقضه) (صحیح سنن النسائی :4998) ”حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور ان کی آوازیں بلند ہوگئیں۔آپ نے سن لیا آپ اس وقت اپنے گھر میں تھے آپ ان کی طرف نکلے اور صحن کا پردہ اٹھایا اور پکارا: اے کعب! وہ بولے لبیک یا رسول اللہ: آپ نے فرمایا: اپنا آدھا قرض معاف کر دے،کعب نے کہا :میں نے معاف کیا۔ پھر آپ نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے کہا: اٹھ اور قرض ادا کر۔“ چنانچہ ہر معاملہ میں حصولِ حق کے گمان سے جھگڑنا مقدمہ بازی اور ذلت و رسوائی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ (7) حق وباطل کے معاملہ میں مداہنت روا نہیں بسا اوقات واقعتا موضوع ایسا ہوتا ہے کہ اس میں حق و باطل کامسئلہ ہوتا ہے۔ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل من جملہ شریعت کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد ہے، اس لئے وہ داعی کے فرائض میں سے اہم ترین فرض ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (الاسراء:81) ” اور کہہ دو کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔“ اور پھر فرمایا: ﴿ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلُ فَيَدْمَغُه فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾ (الانبیاء:18) ” مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سرتوڑ دیتی ہے اور وھ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے۔“ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں بھی عموما افراط و تفریط کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ایک