کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 60
پس آپ اس بارے میں سرسری گفتگو ہی کریں اور ان میں سے کسی سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کریں۔“ لہٰذا ایسے عنوان و موضوعات کا سرسری تذکرہ کرتے ہوئے گزر جانا ہی دانش مندی ہے۔ (6)دنیاوی معاملہ کو طول دینے سے گریز: بسا اوقات موضوع کسی دنیاوی معاملہ کے حوالہ سے ہوتا ہے۔ حقوق کے لینے دینے کا تنازعہ ہوتا ہے۔ایسے معاملہ کو بھی طول نہیں دینا چاہئے۔بلکہ ادائیگی کی صورت میں زیادہ دے کر اور وصول کی صورت میں کم وصول کرکے معاملہ کو حل کرلینا اور تنازعہ و جھگڑا سے کنارہ کشی اختیار کرلینا ہی سلامتی و عافیت کی راہ ہے ۔ ٭ سرورِ گرامی علیہ السلام نے فرمایا: (أنا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترك المرآء وإن كان مُحِقًّا) ”میں ایسے شخص کے لئے جنت کے اطراف میں گھر (ملنے کی )ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا اور اختلاف چھوڑ دے۔“(صحیح ابوداود:4015) ٭ دوسری حدیث میں ہے : (أدخل اللّٰه عزوجل الجنة رجلًا كان سهلًا مشتريًا وبائعًا وقاضيًا ومقتضيًا) (مسند احمد:413) ”اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو اس لئے جنت دے دی کہ وہ معاملات کی خریدوفروخت اور قرض کی ادائیگی اور مطالبہ میں نرم خو تھا اور آسانی روا رکھتا تھا۔“ ٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں ایک رہنما اصول بیان فرمایا: عن أبي رافع أن رسول الله استسلف من رجل بكرًا فأتاه يتقاضاه بكره فقال لرجل (انطلق فاتبع له بكرا) فأتاه فقال ما أصبت إلا بكرا رباعيا خيارًا فقال(أعطه فإن خير المسلمين أحسنهم قضاء) ” ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے بکر(جوانی کے قریب اونٹ ) ادھار لیا وہ شخص آیا اور اسی نوجوان اونٹ کا مطالبہ کرنے لگا۔آپ نے ایک شخص کو اس کے لیے بکر خریدنے کو کہا۔ وہ شخص آیا اور کہنے لگے کہ مجھے تو اچھے والا رباعی اونٹ(ساتویں برس میں لگا ہوا)ملا ہے۔آپ نے فرمایا: اس کو یہی دے دو، مسلمانوں میں بہتر وہ ہے جواچھا قرض ادا