کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 6
سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اُمت ِاسلامیہ جسد ِواحد کی مانند ہے۔ اس کا کوئی حصہ اگر اُمت کے دیگر افراد کی ٹیس کو محسوس نہیں کرتا تو گویا وہ شل ہوچکا ہے۔ اُمت کے مسائل میں دلچسپی رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے !!
اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کی عالمی دہشت گردی اور افغانستان و عراق پر غاصبانہ قبضہ کے خلاف رد ِعمل میں اگر مسلمان اُٹھ کھڑے ہوں تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اُنہوں نے لندن کے میئر کی بات کا حوالہ دیا جس نے لندن کے سٹی ہال میں کہاتھا :
”جس قدر ہم نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے ہیں، اس کا اگر دسواں حصہ ہم پر ڈھائے جاتے تو ہم میں کہیں زیادہ ’دہشت گرد‘ پیدا ہوجاتے۔“
اُنہوں نے 11 ستمبر کے واقعات اور برطانیہ میں حالیہ بم دھماکوں کواسلام کے خلاف ایک گھناوٴنی سازش قرار دیتے ہوئے یہودیوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ 6ہزار یہودیوں کا 11/ستمبر کے روز ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ڈیوٹی پر نہ جانااوربرطانیہ میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام پر ہونے والی میٹنگ میں یہودی وزیر کا حاضر نہ ہونا اس کا واضح ثبوت ہے۔
اُنہوں نے مدنی صاحب کی بات کہ ”یورپ کے ساتھ مکالمہ ہو نا چاہیے“ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اہل یورپ کے درمیان خیر کے علمبردار بھی موجود ہیں۔ اُنہوں نے امریکی مصنف کی کتاب America is Rogue State(بدمعاش امریکہ) کے حوالے سے امریکہ کے ظلم وستم اور پاکستان کے خلاف اس کی سازشوں کا ذکرکیا۔ اُنہوں نے نیلسن منڈیلا، یاسرعرفات وغیرہ کو پہلے دہشت گرد اور پھر امن کا نوبل پرائز دینے کو امریکہ اور یورپی طاقتوں کا دوہرا معیار قرا ردیا۔ اُنہوں نے کہا آج علی گیلانی کو دہشت گرد کہا جارہا ہے ،لیکن ایک وقت آئے گا کہ ان شاء اللھ پھر وہی نوبل پرائز کے حق دار قرار پائیں گے۔ اُنہوں نے پرامن لوگوں کو دھماکہ سے اُڑانے کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے افغانستان اورعراق کے جہادکو اس سے مختلف قرار دیا اور کہاکہ مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے غیر ملکی ایجنسیوں کا ہاتھ کارفرما ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ مغربی طاقتوں کے اشاروں پر اُمت کو دبایا نہیں جاسکتا ہے اور پرویز مشرف کو یہ بات بتائی جائے کہ کوئی اپنی قوم کے خلاف لڑکر جنگ نہیں جیت سکتا۔ اگر وہ