کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 58
پائے۔حوار سے قبل موضوع اور شرکاے مجلس کی نوعیت اور مجلس کے ماحول کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کی مجلس میں شریک گفتگو ہونے سے ا حتراز کرے۔ کبار علما و شیوخ کی مجلس میں خاموشی اختیار کرنا ہی قرینہ ادب ہے۔ جیساکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں جواب معلوم ہونے کے باوجود بھی سکوت اختیارکیا۔ ( بخاری:4698) (4) مناسب عنوان و ماحول کا جائزہ لینا مجلس میں مناسب موضوع و عنوان اور ماحول کو مدنظر رکھنا اور باریک بینی سے جائزھ لینا بھی از حد ضروری ہے، کیونکہ بعض مجلسوں سے کنارہ کشی اور علیحدگی کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ جب مجلس کاماحول محض استہزا اور مذاق ہو، گفتگو میں شعائر ِاسلام کی توہین کارنگ غالب ہو، حق اور اہل حق کی تحقیر ہورہی ہو تو اس مجلس و گفتگو سے کنارہ کشی لازم ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفات اور خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَالَّذِيْنُ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ﴾ (الموٴمنون:2) ”اور وہ لوگ لغویات سے دور رہتے ہیں۔“ اپنے پیغمبر کو شعائر اسلام اور آیات قرآنی کا مذاق ا ڑانے والے منافقین وکفار کی مجلس سے احتراز کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَإذَا رَأَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْ آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهِ وَإمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ﴾ (الانعام:68) ”اور جب آپ ہماری آیات میں عیب جوئی کرنے والوں کو دیکھیں تو ان سے اعراض کیجئے یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔“ نیز فرمایا: ﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِه إنَّكُمْ إذًا مِّثْلُهُمْ إنَّ اللهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِيْنَ وَالْكَافِرِيْنَ فِيْ جَهَنَّمَ جَمِيْعًا﴾ (النساء :140) ”اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس کتاب میں یہ حکم اُتار چکا ہے کہ جب تم کسی مجلس والوں کو اللہ