کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 57
خاموش رہے۔“ (صحیح بخاری:6018) (2)مقصد فخر ومباہات کااظہار اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا نہ ہو اس سلسلہ میں رسول اللہ کا یہ فرمان انسان کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے : (لا تعلموا العلم لتباهوا به العلماء،أو لتماروا به السفهاء أو لتصرفوا به وجوه الناس إليكم فمن فعل ذلك، فهو في النار) (ابن ما جہ:208) ”تم علم اس لئے نہ سیکھو کہ تم اس کی وجہ سے علما پر فخر کرو یا بیوقوفوں سے بحث و مباحثہ اور جھگڑا کرو یا لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف پھیر لو۔ جس نے ایسا کیا وہ جہنم میں جائے گا۔“ ایسے موقعوں پر شیطان خوب گمراہی کے جال بنا کرتا ہے اور اس سے بچنا محال نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے۔مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ”جس طرح شراب اُمّ الخبائث ہے، خود بڑا گناہ ہے اور دوسرے بڑے بڑے جسمانی گناہوں کا ذریعہ بھی ہے، اسی طرح بحث و مباحثہ کا جب مقصود مخاطب پر غلبہ پانا اور اپنا علمی تفوق لوگوں پر ظاہر کرنا ہی ہو جائے تو یہ بھی باطن کے لئے اُمّ الخبائث ہے جس کے نتیجے میں بہت سے روحانی جرائم پیدا ہوتے ہیں، مثلاً حسد، بغض، تکبر، غیبت، دوسرے کے عیوب کا تجسّس،اس کی برائی سے خوشی اور بھلائی سے رنجیدہ ہونا، قبولِ حق سے استکبار کرنا، دوسرے کے قول پر انصاف و اعتدال کے ساتھ غور کرنے کی بجائے جواب دہی کی فکر کرنا، خواہ اس کے پیش نظر قرآن و سنت میں کیسی بھی تاویلات کرنا پڑیں۔ (معارف القرآن: 5 / 430) (3)حفظ ا للسان کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا جائے چنانچہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ زبان کے خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ومن العجب أن الإنسان يهون عليه التحفظ والاحتراز من أكل الحرام والظلم والزنا والسرقة وشرب الخمر ومن النظر المحرم وغير ذلك ويصعب عليه التحفظ من حركة لسانه (الجواب الكافى:ص111 ) ”عجب امر ہے کہ انسان کے لئے حرام خوری، ظلم، بدکاری، چوری، شراب نوشی اور غیر محرم کی طرف دیکھنا وغیرہ ایسے محرمات سے بچنا تو آسان ہے مگر زبان کو کنٹرول کرنا انتہائی مشکل ہے۔“ اس لئے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دوران گفتگو حفظ اللسان کے تقاضوں اور حوار کے آداب و شرائط کو مدنظر رکھے۔دوران حوار اور حوار کے بعد اخلاق وآداب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے