کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 56
حِوار ہے۔ گویا کہ عام مفہوم کے اعتبار سے ہر شخص کی زندگی میں حوار کا عمل پایا جاتا ہے، لیکن ایک عالم اور داعی الیٰ اللہ عزوجل کی زندگی کا تو یہ ایک لازمی حصہ ہے۔ دین اسلام کی دعوت میں بسااوقات مخاطب کو دین حق موٴثر انداز میں پیش کرنا ہوتا ہے تو کہیں مخاطب کے ذہن میں موجود اعتراضات کا جواب دینا ہوتا ہے۔ اگر داعی الیٰ اللہ کو ایک طرف دین حق مثبت انداز میں یا مخاطبین کے قلوب واذہان میں صحیح اور درست عقیدہ و فکر داخل کرنا ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کے باطل نظریہ، فاسد عقیدہ کی بیخ کنی بھی ضروری ہوتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ایک داعی کو جہاں دیگر طریقہ ہائے دعوت کو اختیار کرنا پڑتا ہے وہاں قدم بقدم اسے اپنے مخاطبین کے ساتھ عمل حوار سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا عام اشخاص کی نسبت داعی الی اللہ کے لئے اس موضوع کی اہمیت کو سمجھنا، اس کی ضرورت کو محسوس کرنا، اس کے نشیب و فراز، حدود و قیود اور شرائط و آداب کو جاننا از حد ضروری ہے۔ حوار کے اصول وضوابط اور آداب حوار انسانی زندگی میں اور بالخصوص ایک داعی کی زندگی میں جس قدر ضروری اور لازمی ہے اسی قدر یہ خطرناک اور مہلک بھی ہے۔ تکرار اور ردّ و اخذ کے وقت اعتدال پرقائم رہنا انتہائی مشکل ہوتاہے، بالخصوص حوار میں استعمال ہونے والی زبان کی تیز طراریاں اور منہ شگافیاں بسا اوقات زیربحث مسئلہ کی ذاتی افادیت سے بڑھ کر کہیں بڑے جرائم کا سبب بن جاتی ہیں۔ غیرت و حمیت کی شدت ’نفس امارہ‘ کو ابھارتی ہے اور اس طرح بحث و جدال اپنے موضوع کے دائرہ کارسے کہیں دور نکل کر تفرقہ و اختلاف اور فتنہ و فساد کا موجب بن جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حوار و بحث میں ان اُصول وضوابط کو پیش نگاہ رکھا جائے جو قرآن وسنت اور سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مطالعہ سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ (1)فضول گفتگو سے پرہیز: حضور کا فرمان ہے : (من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرًا أو ليصمت) ”جو شخص اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان لاتا ہے، اُسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا