کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 55
٭ اسی طرح دوسری جگہ ارشادِ ربانی ہے : ﴿ قَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَتَشْتَكِيْ إلَى اللهِ وَاللهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إنَّ اللهَ سَمِيْعٌ بَصِيْرٌ﴾ ( المجادلہ:1) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔“ ٭ جب حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے ظِہار کرلیا تو بیوی اس مسئلہ کو لے کر پیغمبر علیہ السلام کے پاس آئی تو آپ نے حسب ِدستور فرمایا کہ اب آپ اکٹھے نہیں رہ سکتے تو سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کا اس مسئلہ کے بارے میں آپ سے تکرار کرنا، اپنی مجبوری بیان کرنا اور آپ کا جواب ارشاد فرمانا، اس مکالمے کو قرآن مجید نے تحاور(باہم حوار)سے تعبیر فرمایا ہے۔ چنانچہ صاحب مُعجم الوسيط نے حِوار کا یہ مفہوم بیان کیا ہے: حديث يجري بين شخصين أو أكثر في العمل القصصي أو بين مُمثّلين أو أكثر علىٰ المَسرح“ (المُعجم الوسيط:ص 205،دار المعارف) ”حوار سے مراد وہ گفتگو ہے جو دوران مکالمہ دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان یا اسٹیج ڈرامہ میں دو اداکاروں کے درمیان چلتی ہے“ حوار کی ضرورت واہمیت اللہ تعالیٰ نے خاص حکمت کے تحت انسانی طبائع میں فرق رکھا ہے اور ان کے مابین نظری و فکری تفاوت کے باعث اختلاف کا پایا جانا فطری امر ہے۔اسی لئے امر واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایک چیز کو پسند کرتا ہے تو دوسرا کسی دوسری چیز کو ترجیح دیتا ہے۔ ایک شخص ایک چیز کو مفید قرار دیتا ہے تو دوسرے کی عقل و خرد اس کی نقیض و ضد کو بہتر اور فائدہ مند سمجھتی ہے۔ اس طرح اگر کسی عنوان یا موضوع پر مختلف افراد کا اظہارِ خیال ہو تو مختلف نظریات کا سامنے آجانا ایک طبعی امر ہے۔ اور انسان کی فطرت ہے کہ جس رائے کو صحیح خیال کرتا ہے، اسے ثابت کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے اور مخالف نظریے اور رائے پر اعتراض اور تنقید کرنے کے درپے ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں باہم تکرارِ سوال و جواب اور استدلال و جرح کا سلسلہ چلتا ہے، اسی عمل کانام