کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 54
آداب ِمباحثہ مولانا عبد الحنان زاہد أدب الحوار حِوار سے مراد باہمی گفتگو، کسی عنوان پر مباحثہ کرنا اورکسی موضوع سے متعلق سوال و جواب کرنا ہے،کیونکہ حِوار باب مفاعلة کا مصدر ہے جس میں مشارکت کا معنی پایا جاتا ہے۔ حَاوَرَ يُحَاوِرُ مُحَاوَرَةً وَّحِوَارًَا قرآن مجید میں یہ لفظ اسی مفہوم میں وارد ہوا ہے: ٭ سورة الکہف میں دو بھائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُه أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّأَعَزُّ نَفَرًا٭ وَدَخَلَ جَنَّتَه وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَآ أَظُنُّ أَنْ تَبِيْدَ هَذِهِ أَبَدًا ٭ وَمَآ أَظُنُّ السَّاعَةَ قَآئِمَةً وَّلَئِنْ رُّدِدْتُّ إلَى رَبِّيْ لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا٭ قَالَ لَه صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُه أَكَفَرْتَ بِالَّذِيْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰكَ رَجُلًا﴾ ” (ایک دن) وھ اپنے ساتھی سے بات کرتے ہوئے بولا:”میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں۔“ پھر وہ اپنے باغ میں داخل ہوا اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا : ” میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔تا ہم اگر کبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اس سے بھی شاندار جگہ پاوٴں گا۔“ اس کے ساتھی نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا : ” کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفہ سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا۔“ (ترجمہ آیات : 34تا 37 ) یعنی جب ایک باپ کے دو بیٹوں کو وراثت ملی تو اُن میں سے ایک نے اپنا وراثتی حصہ فی سبیل اللہ خرچ کیا اور دوسرے نے اس حصے سے باغات وغیرہ حاصل کرلئے اور وہ ایمان سے دور تر ہوتا چلا گیا۔ اس انداز میں ان کیباہم گفت و شنید اور تکرار کو قرآنِ مجید نے يُحَاوِر(باہم حوار) سے تعبیر کیا ہے۔