کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 5
٭ خطبہ استقبالیہ کے لئے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مدیر حافظ عبد الرحمن مدنی کو دعوت دی گئی۔ اُنہوں نے مہمانانِ گرامی اور تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا اور تقریب میں تشریف آوری پر جامعہ کے ذمہ داران کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اُنہوں نے تاریخی تناظر میں دہشت گردی کے حوالہ سے اسلام کے موقف کو پیش کرتے ہوئے دہشت گردی کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے مغربی طاقتوں کا ایک بڑا ہتھیار قرار دیا جسے خود ساختہ ایشو بنا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی دہشت گردی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اُنہوں نے دورِ حاضر میں ملت ِاسلامیہ کو درپیش چیلنجز کا تذکرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا اور اُنہیں اپنی قوت کو ہر قسم کے تخریبی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھتے ہوئے علم و تحقیق کی تابندہ روایات کو زندہ کرنے اور یورپ کے ساتھ مکالمہ کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔اُنہوں نے بتایا کہ علم وتحقیق سے مسلمانوں کا تعلق گہرا کرنے کے لئے جامعہ ہذاکے زیر اہتمام پاکستان بھر سے تشریف لائے ہوئے سینکڑوں علما کی ایک تربیتی ورکشاپ کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ سیمینار بھی اس ورکشاپ کے آغاز کی مناسبت سے ہی منعقد کیا جارہا ہے۔ مولانا کا مکمل خطاب اور خطبہ استقبالیہ اسی رپورٹ سے متصل بعد ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
٭ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفا ق المدارس السلفیہ پاکستان کے ناظم امتحانات مولانا محمد اعظم نے قرآنی آیت ﴿إِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللهِ الإسْلاَم﴾(آلِ عمران:19) سے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے اسلام کو امن و سلامتی کا علمبردار مذہب قرار دیا اور کہا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ”حیرہ سے مکہ تک ایک عورت بلا خوف و خطر اکیلی سفر کرے گی۔“ کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام کے اس امن وسلامتی کے پیغام کو ساری دنیا تک پہنچانا اُمت ِمسلمہ کی اہم ذمہ داری قرار دیا۔اُنہوں نے کہا کہ اسلام کے قلعے ’دینی مدارس‘ پر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ثابت نہیں ہوسکا ہے،اس کے باوجود ان پردہشت گردی کا الزام عائد کرنا مضحکہ خیز ہے۔
٭ جماعت ِاسلامی پاکستان کے ممتاز رہنما حافظ محمد ادریس نے آیت ِکریمہ ﴿إِنَّ هٰذِه أُمَّتُكُمْ أُ مَّةً وَّاحِدَةً﴾(الانبیاء:92) اورفرمانِ نبوی (الجهاد ماضٍ إلىٰ يوم القيامة)