کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 49
گالیاں سن کے بھی بے مزا نہ ہونے اور گالیوں کے جواب میں دعائیں دینے کا سبق ملتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ داعی کو ﴿لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلٰى أثَارِهِمْ ﴾ (الکہف:6)کا عملی نمونہ ہونا چاہئے۔ ٭ اس کے بعد اُنہوں نے دعوت کی حکمت ِعملی بیان کرتے ہوئے فرمان الٰہی: ﴿أدْعُ إلىٰ سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾(النحل:125)میں ’حکمت‘ کی یہ وضاحت کی کہ داعی عقل و فطرت اور انفس و آفاق کے دلائل و براہین نیز عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ حق کو ثابت کرے اور موعظہ حسنہ کامطلب یہ بیان کیا کہ داعی مخاطبوں کی تباہی کے غم میں گھلتے ہوئے تذكير بأيام الله،تذكير بالقرآن اور تذكير بآلاء الله کے ساتھ سامعین کو خواب ِغفلت سے بیدار کرنے کے لئے ان کے دل پر چوٹ کرے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر مخاطب کسی ذہنی اور فکری شبہ کا شکار ہے اور اسے حق سجھائی نہیں دے رہا تو پھر اس کے ساتھ مجادلہ ہو نا چاہیے اور وہ اس طر ح کہ اسے مسلمات سے منازعات کی طرف اور پھر آخر کار ایسی جگہ پر لے آیا جائے کہ وہ سوچنے پرمجبور ہوجائے۔ (2) اُنہوں نے قرآنی آیت ﴿إنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِه وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ﴾(القلم:7)سے استدلال کرتے ہوئے دعوت کی دوسری حکمت ِعملی یہ بیان فرمائی کہ داعی کو مخاطب پر گمراہ، جہنمی وغیرہ کے فتوے لگانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ یہ داعی کا نہیں، مفتی کا کام ہے۔ داعی کے لئے دستور یہ ہے کہ ﴿إدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ...﴾ (البقرة:208) (3) نیز اُنہوں نے دعوت کی ایک حکمت ِعملی یہ بیان کی کہ داعی تبلیغ و تبیین میں کتمانِ حق اور مداہنت سے کام نہ لے۔ اہم تر سے اہم ترین کے اُصول کوملحوظ رکھتے ہوئے ﴿أُدْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَآفَّةً﴾کو ہدف بنائے اور (صلاح أول هذه الأمة بالذهادة واليقين وهلاك آخرها بالبخل والأمل)٭ (صحیح ترغیب وترہیب:3315)کے تحت توحید باللہ، اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ اور شرک سے نفرت کے ساتھ ساتھ بقولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٭ ترجمہ : ’’ اس امت کے پہلے شخص کی اصلاح زہد اور موت کے ڈر سے ہوئی اور اس امت کے آخری شخص کی ہلاکت کا سبب بخل اور دنیا کی حرص ہو گی ۔‘‘