کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 47
مِّمَّنْ دَعَا إلَى اللهِ...﴾( حم السجدة :33)﴿قُلْ هَذِهِ سَبِيْلِيْ أَدْعُوْ إلَى اللهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىْ...﴾(یوسف:108) ﴿ أُدْعُوْا إلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ...﴾(النحل:125)سے اپنے خطاب کا آغازکرتے ہوئے دعوتِ دین کی اہمیت، اس کی حکمت ِعملی، تقاضوں اور شرائط کو بیان کیا اوران اوصاف کا تذکرہ کیا جو ایک داعی کاطرہٴ امتیاز ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ راہ دعوت کے راہی کے لئے ضروری ہے کہ (1) وہ اخلاص و للہیت کا پیکر ہو اور اس کی دعوت مفاد اوراغرض سے بالاتر ہو۔ مقصود لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا اور ان پر اپنے علم کی دھاک بٹھانا نہ ہو بلکہ اس کی دعوت اللہ کی طرف اور اللہ کے لئے ہو ، نیز داعی کو ہر وقت اپنا محاسبہ اور اللہ سے اخلاص کا سوال کرتے رہنا چاہئے ۔ اُنہوں نے قرآنی آیات ﴿عَلٰى بَصِيْرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىْ﴾ اور ﴿فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ طاَئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَيْهِمْ﴾ اور﴿فَاعْلَمْ أَنَّه لَا إلٰهَ إلَّا اللهُ ﴾ اورصحیح بخاری کے باب:العلم قبل القول والعمل سے استدلال کرتے ہوئے داعی کا ایک وصف یہ بیان کیا کہ (2) اسے اپنی دعوت کا گھرا علم و فہم اور شعور یقین کی حد تک حاصل ہو، اور (3) یہ کہ اس دعوت کی صداقت اور حقانیت اس کے دل ودماغ اور رگ و پے میں اس حد تک سرایت کرجائے کہ مصائب کی آندھیاں اور زمانہ کی گردشیں اس کے پاوٴں میں لغزش پیدا نہ کرسکیں اور اس دعوت کے غالب آنے کا اسے مکمل یقین ہو، جیسا کہ خباب رضی اللہ عنہ نے جب اپنا زخموں سے چھلنی جسم رسول اللھ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا تو آپ نے فرمایا تھا: ”یہ دعوت سچی دعوت ہے، یہ ضرور غالب آئے گی۔ پھر ایک عورت صنعا سے مکہ تک تنہا سفر کرے گی اور اسے کسی کا ڈر نہیں ہو گا۔ اے خباب !پہلے لوگوں کے گوشت کنگھیوں سے نوچے گئے، وہ آروں سے چیرے اور ذبح کئے گئے، لیکن یہ مصائب انہیں دین سے ہلا نہ سکے۔خباب! صبر کرو اور جلدی نہ کرو۔“ اور جنگ ِخندق میں ﴿وَإِذْ زَاغَتِ الأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللهِ الظُّنُوْنَا﴾ جیسے خوفناک حالات میں آپ کا قیصریٰ و کسریٰ اور خیبر کی تباہی کی پیش گوئی کرنا، آپ کا اپنی دعوت کی صداقت اور اس کے غلبہ پر یقین محکم کا آئینہ دار ہے۔