کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 46
اس کے برعکس بعض لوگوں نے عقل پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے وحی، کتاب اللہ اور حدیث کو عقل کے پیمانوں پر پرکہنا شروع کردیا اور پوری اسلامی تاریخ میں سب سے بدترین فتنے عقلانیوں کے اس گروہ نے برپا کئے۔ اُنہوں نے اس گروہ کے سرخیل زمخشری اور باقلانی وغیرہ کے اوہام اور گمراہ کن نظریات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان عقل پرستوں کو وہم پرست اور وسواس و اتباع الہویٰ کے مریض قرار دیا جنہوں نے بے شمار انسانوں کو گمراہ کیا اور پھر اپنے کئے پر ندامت کے آنسو بہاتے اس دنیا سے چلے گئے اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کوالمنقذ من الضلال میں آخر یہ اعتراف کرنا پڑا : (1) انسانی مصالح کو سب سے بڑھ کر جاننے والے اللہ کے رسول ہیں۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب کچھ انسانوں تک پہنچا دیا جو اللہ نے ان پر نازل کیا تھا۔ (3) ساری کائنات میں سب سے بڑھ کر کتاب و سنت کے معانی کو جاننے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، جن کے سامنے قرآن نازل ہوا اور اللہ نے آسمان سے ان کی صفائی پیش کی۔ (4) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان متکلمین کی طرح قرآن کی تاویلات پیش نہیں کیں۔ مولانا نے الہام، کشف، وجدان اور اوہام کی بجائے صرف وحی الٰہی کو مصدرِ علم اور محدثین کے توسط سے اُمت تک پہنچنے والے صحابہ و تابعین کے طریقہ کو منہج تلقی قرا ردیتے ہوئے عقل کا کردار یہ بیان کیا کہ اگر عقل کو پس پشت ڈال دیا جائے تو جاہلیت، صوفیت اور رافضیت جنم لیتی ہے اور اگر عقل پر اندھا اعتماد کیا جائے تو ہوا پرستی اور اعتزالیت جنم لیتی ہے۔ اُنہوں نے الٰہیات اور مابعد الطبیعات اُمور کو عقل کے دائرہ سے خارج قرار دیا اور صرف توحید، علم الکلام اور فقہیات اور اجتہادی اُمور کو عقل کا دائرہ کار قرا ردیتے ہوئے اس میں عقل سے کام لینے کے لئے درج ذیل اُصولوں کو پیش نگاہ رکھنا ضروری قرا ردیا: (1) عقل وحی کے تابع ہو۔ (2) وحی اور عقل کا رشتہ استاد اور شاگرد کا ہے ،وحی کی حیثیت استاد اور عقل کی حیثیت شاگرد کی ہے۔ (3) عقل کا دائرہ زمان و مکان اور حواسِ خمسہ اور عالم السعادت تک محدود ہے، الٰہیات اور عالم الغیب تک رسائی عقل کے بس کی بات نہیں ہے۔ ٭ ان کے بعد مولانا حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ نے آیات ِقرآنیہ:﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً