کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 45
صاحبي السجن کا سا خوبصورت اندازِ تخاطب ، ہمارے لئے مشعل راہ ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا داعی صرف مسجد میں ہی نہیں بلکہ وہ گھر ، بازار ، دوستوں یا دشمنوں کی مجلس میں دعوت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اُنہوں نے اخلاقِ حسنہ ،مسکرا کر بات کرنا، کھانا کھلانا، ہر حقدار کو اس کا حق دینا، دوسروں کی غم خواری، دعوت میں تدریج و حکمت کو ملحوظ رکھنا وغیرہ پر زور دیتے ہوئے علم کے ساتھ عمل وحلم کو بھی ایک داعی کی میراث قرار دیا۔ اُنہوں نے دعوتِ دین کے موضوع پر ڈاکٹر عبد الغنی فاروق کی کتاب ”ہم کیوں مسلمان ہوئے؟ “اور ڈاکٹر فضل الٰہی کی کتاب ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ِمعلم “جیسی چند دیگر کتابوں کا تعارف کرواتے ہوئے ان کے مطالعہ کی تلقین کی۔ ٭ ورکشاپ کو دلچسپ اور مفید تر بنانے کے لئے مسلسل تیسرے روز بھی علمی زیارت کا انتظام تھا۔ آج لاہور میں عرصہ دراز سے مصروفِ عمل دار الدعوة السلفیہ اور مکتبہ سلفیہ کا پروگرام تھا، اسی ادارے سے ہفت روزہ الاعتصام بھی شائع ہوتا ہے اور لاہور کی اہم دینی لائبریری بھی یہیں قائم ہے۔یہاں بھی شرکا کو علم وطباعت کے میدان میں مکتبہ کی خدمات کا تعارف کرایا گیااور دار الدعوة کی دینی سرگرمیوں کی جامع رپورٹ پیش کی گئی۔ چھٹا روز جمعرات: 28 /جولائی 2005ء ٭ ورکشاپ کے آخری روز مکتب ُالدعوة اسلام آباد کے ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر نے ’عقل اور اسلام میں اس کادائرہ کار‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انسانی زندگی میں عقل کے کردار اور اس کی اہمیت کا تذکرہ کیا۔ت اُنہوں نے عقل کے صحیح استعمال کو معاشرہ اور علمی دنیا کے لئے بے حد مفید اور عقل میں افراط و تفریط کے رویہ کو معاشرہ اور علمی دنیا کے لئے وبال اور انتہائی مہلک قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ عقیدہ اور عمل کے درست ہونے کے لئے خود علم، مصادر ِعلم اور منہج تلقی کا درست ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بعض لوگوں نے عقل دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے وحی کے بجائے اوہام، کشف، وجدان، ذوق اور خوابوں کو مصدرِ علم اور اصل دین قرار دیا تو بعض نے اپنے جیسے انسانوں کو مقدس، معصوم اور عالم الغیب سمجھ کر انہیں مصدرِ علم سمجھ لیا۔