کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 43
کے کوہ طور پر جانے کے بعد بچھڑے کو خدا بنا لیا تھا، لیکن آپ نے ان صحابہ کو تجدید ِایمان کا حکم نہیں دیا کیونکہ انہوں نے لا علمی کی وجہ سے اس کفریہ کلمہ کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے حاضرین سے بریلویوں کو کافر کہنے کی بجائے ان کی جہالت کو ختم کرنے پر زور دیا۔ اُنہوں نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو جنہوں نے کفار کی ناقابل برداشت اذیت ناکی سے مجبور ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے بارے میں کچھ ناروا باتیں کہہ دیں تھیں،سے استدلال کرتے ہوئے ’ا کراہ‘ (مجبوری) کو ایسا سبب قرار دیا جس کی بنا پر کسی کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، بشرطیکہ انسان کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ لیکن عظمت کا تقاضا یہی ہے کہ آدمی استقامت کا مظاہرہ کرے اور ہماری تاریخ ایسے اصحابِ عزیمت سے بھری پڑی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کافروں کے نقصان سے بچنے کے لیے یا ان کو نقصان پہنچانے کے لئے بھی آدمی اسلام کو چھپا کر کفر کا اظہار کرسکتا ہے، جیسا کہ جنگ ِخندق کے موقع پر نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کفار کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے یہودیوں اور کفارِ مکہ کے سامنے کفر کا اظہار کیا۔ محمد بن مسلمہ نے دشمن اسلام کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لئے آپ کے خلاف نازیبا الفاظ اور کفر کے اظہار کی اجازت طلب کی تاکہ اس کی ہمدردی حاصل کی جائے تو آپ نے اجازت دے دی۔اسی طر ح اگر شدتِ جذبات سے بھول کر کلمہ کفر منہ سے نکل جائے تو ایسے شخص کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جنگل میں سامانِ رسد سے لدا ہوا اونٹ گم ہوجائے اور انسان موت کے انتظار میں لیٹ جائے اور اُٹھے تو اونٹ سامنے کھڑا ہو اسے دیکھ کر شدتِ جذبات سے کہہ دے :”اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا ربّ “ تو اللہ اس بندے کی بات سن کرتعجب کرتاہے۔ یا انسان کسی غلط نظریہ کی بنیاد پر کلمہ کفر کا ارتکاب کرے، مثلاً بخاری میں اس کفن چور کا واقعہ جس نے اللہ کے ڈر سے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ موت کے بعد میری لاش کو جلا کر ہوا میں اُڑا دینا، شاید اس طرح اللہ مجھے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہ ہوسکے اور میں اس کے عذاب سے بچ جاوٴں۔ بظاہر یہ کلمہ کفر ہے، لیکن اللہ سے ڈر جانے کی وجہ سے اللہ نے اسے معاف کردیا۔اُنہوں نے کہا کہ حدیث: (رُفِع القلمُ عن ثلاث) کے تحت اگر کوئی شخص نیند میں یا نشہ میں یا حکایت کے طور پر کفر کا ارتکاب کرے تو اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔