کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 42
خدمات کا ایک جامع تعارف پیش کیا۔ عشائیہ کے بعد تمام شرکا کو دار السلام کی مطبوعات پیش کی گئیں اور رات گئے قیام گاہ کو واپسی ہوئی۔ پانچواں دن بدھ 26 /جولائی 2005ء تلاوتِ کلامِ مجیدکے بعد مولانا عبدالستار حماد کو ”تکفیر کے ضوابط، اثرات، شروط اور اس کے موانع“ کے موضوع پر محاضرھ کی دعوت دی گئی۔ مولانا موصوف نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ اُنہوں نے ایک جنگ میں بظاہر تلوار کے ڈر سے کلمہ پڑھنے والے کو قتل کردیا تھا اور رسول اللھ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل سے برا ت کا اعلان کیا تھا، اور دوسری حدیث جس میں آپ نے ایک لونڈی سے اللھ کے بارے میں پوچھا تو اس نے آسمان کی طرف اشارھ کیا، سے استدلال کرتے ہوئے لا إله الا الله کے اقرار اور کسی ایسے قرینہ یااشارہ کو دخولِ اسلام کا دروازہ قرار دیا جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ وہ اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ تلوار کے ڈر سے کلمہ پڑھ رہا ہے یا محض دکھاوے اور ریا کاری کے لئے۔ اس کے بعد اُنہوں نے ایسے شخص کو اسلام سے خارج قرار دیا جو توحید ربوبیت، اُلوہیت، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اللہ کی ذات یا رسالت کے بارے میں طعن کرتا ہے۔ ایسا شخص اگر دوبارہ اسلام میں داخل ہونا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کلمہ طیبہ کے اقرار کے ساتھ اپنے اس سابقہ عقیدہ سے برا ت کا اعلان بھی کرے۔ اُنہوں نے کہا کہ بعض اوقات تکفیر کے اسباب موجود ہوتے ہیں، لیکن بعض موانع کی وجہ سے کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا۔ ان میں سے ایک تاویل اور دوسرا جہالت ہے۔ جو شخص تاویل یا جہالت کی وجہ سے کفر کا ارتکاب کرتا ہے، اُسے کافر نہیں کہہ سکتے ،مثلاً حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا اور کہا کہ جب ہم بادشاہوں کے پاس جاتے ہیں تو اُنہیں سجدہ کرتے ہیں اور آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں تو آپ نے منع فرما یا،لیکن حضرت معاذکو تجدید ِایمان کا حکم نہیں دیا۔ اسی طرح جب جنگ ِحنین کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ سے ذات ِانواط قائم کرنے کی درخواست کی تو آپ نے انہیں قومِ موسیٰ سے تشبیہ دی جنہوں نے حضرت موسیٰ