کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 41
سکوت کے دوران کیا پڑھتے ہیں؟“ یہاں خاموشی اور پڑھنا دونوں کو اکٹھا ذکر کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ خاموشی کے وقت پڑھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح خطبہ جمعہ کے دوران رسول اللہ نے اِنصات کا حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ خطبہ جمعہ کے دوران بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے کی تلقین بھی کی ہے تو معلوم ہوا کہ دو رکعت پڑھنا انصات کے منافی نہیں۔اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ میں آیت:﴿إِذَا قُرِيٴَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَه وأَنْصِتُوْا﴾کی موجودگی میں نماز میں باتیں بھی کرلیا کرتے تھے جس سے بعد میں روک دیا گیا۔نیز اُنہوں نے بتایا کہ میرے ان دلائل سے متاثر ہو کر مخالف مناظر مولانا محمد صادق جو مولانا غلام اللھ کے شاگرد ہیں،نے اہل حدیث ہونے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ مناظرہ میں ایسے دلائل پیش کریں جس سے مخالف کو بھی انکار نہ ہو، مثلاً رفع الیدین کے بارے معروف حنفی عالم مولانا انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہإن الرفع متواتر إسنادًا وعملًا لايشك فيه ولم ينسخ ولاحرف منه...الخ (نیل الفرقدین: ص22) ” رفع الیدین کی سنت روایت اور عمل ہر دو کے لحاظ سے متواترچلی آرہی ہے، یہ امر شک وشبہ سے بالا ہے، اس میں کوئی نسخ نہیں ہوا بلکہ اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا ...“ اسی طرح شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے رفع الیدین کی احادیث کواکثر اور أثبت اور اس عمل کو زیادہ پسندیدہ قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے ذکر کیا کہ کسی بھی صحابی رسول سے عدم رفع الیدین ثابت نہیں ہے ۔نیز اُنہوں نے فقہ کے متعدد مسائل کا ذکر کیا جو صریح اور صحیح نصوص کے مخالف ہیں اور ان کو چھوڑنے پر اگر کوئی چیز مانع ہے تو وہ تقلید ہے۔ ُانہوں نے کہا کہ مناظرہ میں تقلید ِجامد کا رویہ قطعاً قابل تحسین نہیں ہے۔ ٭ شام کی نشست کے ان دو خطابات کے بعدلاہور میں مکتبہ دار السلام کی زیارت کا پروگرام تھا، دو بڑی بسوں میں تمام دعاة بوقت ِ مغرب مکتبہ پہنچے۔ باجماعت نماز کے بعد لاہور کے منتخب اہل علم کو سٹیج پر تشریف لانے کی دعوت دی گئی۔ استاذ القراء قاری محمد ادریس عاصم کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا، نظم کے بعد پروفیسر عبد الجبار شاکر ، مکتبہ کے مدیر تحقیق وتصنیف حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا عبد الستار حماد نے اپنے خطابات میں مکتبہ کی