کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 40
دیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام شرائط کو مسترد کردیا۔ وفد ناکام چلا گیا، لیکن صبح ہی واپس آکر وہ لوگ اپنی شرائط سے دستبردار ہوکر مسلمان ہو گئے۔ اُنہوں نے کہا کہ افسوس آج آلِ رسول ہونے کا دعویٰ کرنے والے،کعبہ کی چھت پر چڑھنے اور اپنے لئے روضہٴ رسول اور خانہ کعبہ کا دروازہ کھلنے کو اپنے اسلامی تشخص کی علامت قرار دینے والے بھی اپنے لئے ایسی ہی عجیب و غریب شرائط کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مولانا راشدی نے کہا کہ واشنگٹن میں میری ایک لبرل دانشور سے بات ہوئی۔ اس نے کہا کہ” ساری باتیں ٹھیک ہیں، لیکن ہمیں کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ عالمی برادری کی بات بالکل نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔“میں نے اُسے کہا: آوٴ، ترمیمی بل تیار کرتے ہیں کہ مثلاً حدود اور فلاں فلاں چیز یں ختم کردی جائیں ،لیکن تم بتاوٴ اس بل کو کس فورم پر پیش کرنا ہے کیا اقوامِ متحدہ، او آئی سی یا مشرف کے پاس اتھارٹی ہے کہ وہ ﴿اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا أَيْدِيَهُمَا﴾ ﴿ألزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ﴾ میں ترمیم کرسکے ۔ اس میں ترمیم کی اتھارٹی کون ہے … ؟ نوٹ:یہ مکمل خطاب بعد میں روزنامہ ’اسلام‘ میں 3 قسطوں اور پمفلٹ میں شائع کر دیا گیا۔ ٭ مولانا قاضی عبدالرشید،جھلن جماعت ِاہل حدیث کے معروف مناظر ہیں، اُنہوں نے ’اُصولِ مناظرہ‘ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ایک مناظر کے لئے عالم دین ہونا ضروری قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ مناظر کو اپنے موقف پر تمام دلائل اور مخالف فریق کے اعتراضات و دلائل اور ان کے جوابات پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہئے۔ اپنی اور مخالف کی مسلمہ کتب کا ہمراہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مناظرے کا یہ اہم اُصول ہے کہ آ پکا دعویٰ نرم ہو، لیکن دلائل مضبوط ہوں اور جس مسئلہ کے بارے میں دلائل کمزور ہوں ،اس پر مناظرہ نہ کریں۔ نیز مناظرہ کرتے ہوئے ارد گرد کے ماحول اور حالات کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ اُنہوں نے اپنے ایک مناظرہ کے حوالہ سے فاتحہ خلف الامام کے دلائل فراہم کرتے ہوئے ثابت کیا کہ امام کے پیچھے سراً سورة فاتحہ پڑھنا حدیث کے لفظ ’انصات‘ (خاموشی) اور قرآن کے حکم ’توجہ سے سننا‘ کے منافی نہیں ہے مثلاً صحیح بخاری کی روایت ہے کہ صحابی رسول نے آپ سے پوچھا: إسكاتك بين التكبير والقراء ة ما تقول ” آپ تکبیراور قراء ة کے مابین