کتاب: محدث شمارہ 292 - صفحہ 38
قائم کی اور یہ حدیث (إن لربك عليك حق ولزوجك عليك حق فأعطِ كل ذي حق حقه) اور اسلام کی دیگر تعلیمات اعتدال کی آئینہ دار ہیں،لیکن آج خوارج کی طرح جنہوں نے ﴿إِنِ الْحُكْمُ اِلَّا للهِ﴾ کو غلط مقصد کے لئے استعمال کرکے دین میں فتنہ پیدا کیا تھا،اسی طرح روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی اصطلاح کو بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ ”كلمة حق أريد بها الباطل“ غلط مقصد اور اُمت میں انتشار پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو بالکل اس کے متضاد معانی میں استعمال کرتے ہوئے ہم سے یہ تین مطالبات کئے جارہے ہیں : (1) ہم دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ میں بس مثبت باتیں کریں، منفی باتیں نہ کریں اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفاہمت (کمپرومائز)کی کوئی صورت نکالیں۔ (2) دورِ حاضر کے تہذیبی، تمدنی اور معاشرتی ارتقا اور ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے ان روایات، قوانین اسلامی اور اعمال سے دستبردار ہوجائیں جو آج کے ماحول اور عالمی حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ حدود آرڈیننس ختم کریں، مرد وزَن میں توازن قائم کریں اورعورت کو طلاق کا حق دیں۔ (3) مذہب کا تعلق صرف اخلاقیات، عقیدہ اور عبادات تک محدود رکھیں اور تجارت، سیاست اور اجتماعیات کو مذہب کی جکڑ بندیوں سے آزاد کریں تو ہم اعتدال پسند اور روشن خیال، وگرنہ نہیں! اس کے بعد اُنہوں نے دورِ رسالت کے کافروں کے ساتھ مسلمانوں کے تین مکالمات کا تذکرہ کیا جن سے اُنہوں نے یہ ثابت کیا کہ اسلام عقائد، اُصول اور اقدارِ مشترک پر سمجھوتہ کرنے کا روادار نہیں ہوسکتا اور پوپ کی طرح کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی حکم میں تبدیلی کرے اور اس میں ایک مکالمہ اس وقت کا ہے جب اسلام مغلوب اور مسلمان بے بس تھے، اس سے ہمارے اوپر اس اعتراض کا بھی ردّ ہوجاتا ہے کہ تم اپنے غالب دور کی باتیں کرتے ہو، حالانکہ غالب دور کا فلسفہ اور ہوتا ہے اور دورِ مغلوبیت کا فلسفہ اور! پہلا مكالمہ:اس وقت جب مسلمان ظلم و ستم کے بدترین دور سے گزر رہے تھے۔ اس دور کے غالب مذہب کے حامل مکہ کے 25 سردارنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم